عنوان: کرایہ داری کے معاملہ میں چند ناجائز صورتیں(9096-No)

سوال: مفتی صاحب ! زید نے مارکیٹ میں عمر سے درج ذیل شرائط پر دکان لی تھی:
1۔ دکان میں پیشگی رقم زیادہ ہوگی اور کرایہ کم ہوگا۔
2۔ دکان کا مالک زید کو زید کی مرضی کے بغیر نکال نہیں سکے گا۔
3۔ دکان اگر زید اپنی مرضی سے خالی نہیں کرتا تو عمر اس پر خالی کرنے کا زور نہیں کر سکتا۔
4۔ اگر مالک مارکیٹ کو گرا کر نیا بنانا چاہتا ہے تو زید سے صرف کنسٹرکشن کے اخراجات وصول کریگا اور کسی قسم کی رقم نہیں لیگا۔
5۔ زید کو دکان کی آگے منافع پر فروخت کا اختیار ہوگا۔
6۔ دکان کی حیثیت جزوی ملکیت کی ہوگی، انتقال مالک کے نام پر ہوگا، لیکن زید اس کو آگے دکان کا قبضہ اور کاروبار فروخت کرسکتا ہے۔
مذکورہ شرائط اگر ہو تو اس میں زید کو یہ دکان منافع پر فروخت کرنا جائز ہیں ؟ دکان کی گڈویل یا انویسٹمنٹ کو زیادہ ٹائم گزرنے پر زید منافع حاصل کرسکتا ہے؟ شریعت کی رو سے مہربانی فرمائیں۔ شکریہ

جواب: کرایہ داری کے ذکر کردہ طریقہ کار میں کئی شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں، جیساکہ: پیشگی رقم سے مراد اگر سیکورٹی کی رقم ہو، تو اس کی وجہ سے معروف کرایہ میں کمی کرنا جائز نہیں ہے، نیز کرایہ داری کے معاملہ کو کرایہ دار (زید) کی مرضی کے ساتھ مشروط کرنا، اور اس کی کوئی مدت طے نہ کرنا، کنسٹرکشن کے اخراجات وصول کرنے کی شرط لگانا، کرایہ دار کا دکان کو آگے منافع پر دینے کی شرط لگانا، اور کرایہ دار کی جزوی ملکیت تسلیم کرنا، یہ وہ وجوہات ہیں، جو کرایہ داری کے معاملے کو ناجائز بناتے ہیں، لہذا مذکورہ طریقہ کار شرعا درست نہیں ہے۔
اگر مذکورہ غیر شرعی شرائط کو ختم کرتے ہوئے معاملہ کیا جائے، تو کرایہ داری کا معاملہ جائز ہوگا، چنانچہ مذکورہ صورت میں سیکیورٹی کی وجہ سے کرایہ میں کمی نہ کی جائے، کرایہ داری کی ایک مخصوص مدت طے کرلی جائے، جس کے گزرنے پر معاہدہ ختم ہوگا، اور ہر فریق آزاد ہوگا، معاہدہ ختم ہونے پر مالک اگر چاہے تو وہ دکان اسی کرایہ دار کو یا کسی اور کرایہ دار کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔
نیز دکان کی گڈول (goodwill) وغیرہ کو دیکھتے ہوئے کرایہ داری کے نئے معاہدے میں باہمی رضامندی سے کرایہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن الکبری للبیہقي: (باب کل قرض جر منفعۃ، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا۔

الھدایۃ: (48/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين، أو للمعقود عليه، وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا۔

شرح المجلۃ: (الفصل الثالث فی شروط صحۃ الاجارۃ، المادۃ: 450- 451)
"یشترط ان تکون الاجرۃ معلومۃ۔۔۔یشترط فی الاجارۃ ان تکون المنفعۃ معلومۃ بوجہ یکون مانعا للمنازعۃ"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 796 Jan 12, 2022
karaya dari k / kay mamlay / muamle / muamlay me / mein chand najaiz / najaez soortein / sortain

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.