سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کسی شخص کے پاس کمیٹی کے پیسے جمع ہوتے ہوں اور وہ ان پیسوں میں سے کچھ رقم اپنی ضرورت میں استعمال کرلے، اور اسے یہ یقین بھی ہو کہ جس شخص کی اس ماہ کمیٹی ہے، اس کو مقررہ تاریخ پوری ہونے سے پہلے پہلے کمیٹی کی رقم میں ملا کر دے دوں گا، جس سے ممبر کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوگی تو کیا اس طرح سے کمیٹی کے پیسے اپنی ضرورت میں استعمال کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرمادیں۔
جواب: جو شخص کمیٹی ممبران سے رقم اکھٹی کرنے کا ذمہ دار ہو، کمیٹی کی رقم اس کے پاس امانت ہوتی ہے، اور امانت کا حکم یہ ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کا تصرف نہ کیا جائے، لہذا کمیٹی ممبران کی اجازت کے بغیر کمیٹی کی رقم میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا یا اسے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (338/4، ط: دار الفکر)
وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق.
شرح المجلۃ: (ص: 61، ط: مکتبۃ حبیبیہ)
لایجوز لأحد ان یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ او وکالۃ منہ او ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی