عنوان: اہل بدعت کی اقتدا میں دعوت دین کی غرض سے نماز ادا کرنے کا حکم(9145-No)

سوال:
1- بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے اور اگر پڑھ لی تو کیا حکم ہوگا؟
2- کچھ لوگ تبلیغ والو سے کہتے ہیں کہ اُن ( یعنی بدعتی) کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ اگر اُن کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے، تو ان کو دعوت کیسے دیں گے؟ اس کے بارے میں بھی کچھ وضاحت فرمائے کر اس بندہ ناچیز کو شکریہ ادا کرنے کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب: اگر کسی اہل بدعت امام کے عقائد شرکیہ ہوں، تو اس کی اقتدا میں نماز ادا ہی نہیں ہوگی، لیکن اگر اس کے عقائد شرکیہ نہ ہوں، تو بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر قرب و جوار میں ایسی مسجد نہ ہو، جہاں صحیح العقیدہ متبعِ سنت امام میسر ہو، بلکہ اہل بدعت کی مسجد ہو، تو جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اور امت میں انتشار کے فتنے سے بچنے کے لیے ایسے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
لیکن مذکورہ بالا مجبوری کے بغیر، صحیح العقیدہ متبع سنت امام کی اقتدا چھوڑ کر، بدعتی امام کی اقتدا میں اس غرض سے نماز ادا کرنا کہ اسے دعوت دی جائے، جان بوجھ کر مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرنا ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دین کی دعوت دینے کے لیے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا، تو اس بارے میں درج ذیل اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں، جو محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دعوت دین کے اصول بیان کرتے ہوئے ایک تقریر میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اس سلسلہ میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ ہم لوگ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو، لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں۔
ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع و وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کر کے اپنی پوری کوشش صرف کر دیں۔ اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ عین مراد ہے۔
لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کر کے لوگوں کو دین کی دعوت دیں، اور آدابِ تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنا دیں گے، تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے، اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں، تو اس کامیابی کی ﷲ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی، وہ دین کی نہیں، کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی"۔
(ماخوذ از نقوشِ رفتگاں: ص:۱۰۴،۱۰۵، مؤلفہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (559/1، ط: دار الفکر)
"(ويكره)۔۔(امامة عبد)۔۔۔۔(ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها)۔۔۔۔(وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها)۔۔۔۔(فلا يصح الاقتداء به أصلا)".

الدر المختار مع رد المحتار: (562/1، ط: دار الفکر)
"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة۔۔۔۔الخ".
"(قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 590 Jan 17, 2022

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.