سوال:
مفتی صاحب! ایک عاقلہ بالغہ لڑکی سے زبردستی نکاح نامے پر دستخط کروائے گئے، جبکہ وہ چلا کر رو رہی تھی، صرف اس وجہ سے کہ اس کے باپ کے خواہش تھی کہ نکاح اس لڑکے سے ہو، جب کہ لڑکی کہیں اور نکاح کرنا چاہتی ہے، کیا یہ نکاح شرعاً معتبر ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے نکاح کے لیے اس کی رضامندی ضروری ہے، لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ لڑکی کا آواز سے رونا اور چلانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لڑکی اس نکاح پر رضامند نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں محض نکاح نامے پر زبردستی دستخط کروانے سے نکاح منعقد نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (کتاب النکاح، 44/2، ط: رشیدیه)
ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻧﻜﺎﺡ ﺃﺣﺪ ﻋﻠﻰ ﺑﺎﻟﻐﺔ ﺻﺤﻴﺤﺔ اﻟﻌﻘﻞ ﻣﻦ ﺃﺏ ﺃﻭ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺑﻐﻴﺮ ﺇﺫﻧﻬﺎ ﺑﻜﺮا ﻛﺎﻧﺖ ﺃﻭ ﺛﻴﺒﺎ ﻓﺈﻥ ﻓﻌﻞ ﺫﻟﻚ ﻓﺎﻝﻧﻜﺎﺡ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﻋﻠﻰ ﺇﺟﺎﺯﺗﻬﺎ ﻓﺈﻥ ﺃﺟﺎﺯﺗﻪ؛ ﺟﺎﺯ، ﻭﺇﻥ ﺭﺩﺗﻪ ﺑﻄﻞ…ﻭﺇﻥ ﺑﻜﺖ اﺧﺘﻠﻔﻮا ﻓﻴﻪ ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﺃﻥ اﻟﺒﻜﺎء ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺑﺨﺮﻭﺝ اﻟﺪﻣﻊ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺻﻮﺕ ﻳﻜﻮﻥ ﺭﺿﺎ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻊ اﻟﺼﻮﺕ ﻭاﻟﺼﻴﺎﺡ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﺭﺿﺎ، ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ. ﻭﻫﻮ اﻷﻭﺟﻪ ﻭﻋﻠﻴﻪ اﻟﻔﺘﻮﻯ.
المبسوط للسرخسي، (باب نکاح البکر، 3/5، 4، 5، ط: رشیدیه)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی