سوال:
کسی جواری سے قرض یا ویسے تحفے کے طور کوئی رقم یا چیز لینا کیسا ہے، جبکہ پتا بھی ہو کہ اسکا پیسہ حرام کا ہے؟
جواب: کسی مسلمان کے لیے یہ جانتے ہوئے کہ قرض دینے والا اسے خالص حرام مال سے دے رہا ہے٬ یہ حرام رقم بطورِ قرض وصول کرنا اور اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اس طریقہ سے حرام مال حلال ہوگا۔
حرام مال کا اصول یہ ہے کہ اسے اصل مالک کی طرف لوٹایا جائے٬ اگر مالک معلوم نہ ہو، تو اسے بغیر نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے٬ ایسا حرام مال اپنی ضروریات (تجارت یا قرض کی ادائیگی وغیرہ میں) استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (342/5، ط: دار الفکر)
"ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار".
فقہ البیوع: (1021/1، ط: مکتبہ معارف القرآن)
"وان علم الآخذ ان الحلال والحرام متمیزان عندہ، لکن لم یعلم ان ما یاخذہ من الحلال او من الحرام، فالعبرة عند الحنفیة للغلبة، فان کان الغلبة فی مال المعطی الحرام لم یجز لہ وان کان الغالب فی مالہ الحلال، وسع لہ ذلک".
رد المحتار: (مطلب في من ورث مالًا حرامًا، 99/5، ط: سعید)
"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب ردّه عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحلّ له ويتصدّق به بنية صاحبه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی