عنوان: شوہر یا بیوی مرتد ہو جائے تو نکاح کا کیا حکم ہے؟(9165-No)

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ اگر بیوی یا شوہر سے کفریہ کلمہ ادا ہوئے ہوں یا کوئی ایسا فعل ہوا ہو، جس سے وہ دائرہ اسلام سے نکل گئے ہوں، کیا اس سے ان کا نکاح ٹوٹ جائے گا؟ کیا اس حالت میں نکاح ٹوٹ جانے کے بعد لڑکی کسی اور کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے؟ نکاح ٹوٹنے اور طلاق دینے میں کیا فرق ہے؟

جواب: اگر کسی شادی شدہ شخص نے ایسا کلمہٴ کفر ادا کیا، جس کی بنا پر معتبر مفتیان نے تحقیقِ واقعہ کے بعد اس شخص کے“مرتد” ہونے کا فتوی دے دیا، تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا اور بیوی اس سے بائنہ ہو جائے گی، لہذا وہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
البتہ اگر شوہر دوبارہ مسلمان ہوجاتا ہے اور وہ اپنی پہلی بیوی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، تو عدت یا عدت گزرنے کے بعد اس کی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتا ہے۔
اگر بیوی نے کلمہ کفر ادا کیا ہے، تو مفتیٰ بہ کے مطابق اس کا نکاح سابق شوہر سے بدستور قائم رہے گا، لیکن شوہر کے لیے عورت کی طرف سے تجدید نکاح سے پہلے اس کے ساتھ وطی یا دواعی وطی شرعاً جائز نہیں ہے۔
ایسی صورت میں بیوی یا تو تجدید اسلام کرکے اپنے سابق شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارے، یا پھر شوہر سے طلاق حاصل کرلے۔
2۔ واضح رہے کہ نکاح ٹوٹ جانا طلاق کا اثر ہوتا ہے، اس لیے اس اعتبار سے فرق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، البتہ میاں بیوی میں علیحدگی کے لیے فقہاء کرام کی عبارات میں دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں:
(1) طلاق اور (2) فسخ نکاح۔

گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ میاں اور بيوى ميں عليحدگى دو طريقوں سے ہوتى ہے، يا تو طلاق يا پھر فسخ نكاح (نکاح ٹوڑنا)كے ذريعہ۔
ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ شوہر كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اور اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں۔
اور فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنے اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصل سے ختم كرنے كا نام ہے، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوتا ہے۔
اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے:
1 ـ طلاق صرف شوہر كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح شوہر كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں شوہر كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں ہے۔
2 ـ طلاق كے كئى ايک اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف شوہر کے الفاظ طلاق ادا کرنے سے ہوگی، اور فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے، جو فسخ كو واجب يا مباح كرے۔
فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں:
(1) شوہر اور بيوى كے درمیان كفؤ و مناسبت کا نہ ہونا۔
(2) میاں بيوى ميں سے كوئى ايک اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے۔
(3) شوہر اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو۔
(4) میاں اور بيوى ميں لعان ہو جائے۔
(5) بیوی کا شوہر كے نفقہ و اخراجات سے تنگ اور عاجز ہو کر فسخ نكاح طلب كرنا۔
(6) میاں يا بيوى ميں سے كسى ايک ميں ايسا عيب پايا جائے، جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے۔
3 ـ فسخ نكاح كے بعد شوہر كو رجوع كا حق حاصل نہيں ہوتا، جبکہ طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اس کى بيوى ہے، اور پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو۔
4ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (194/3، ط: دار الفکر)
(لو) (ارتد) وعليه نفقة العدة (ولا شيء من المهر والنفقة سوى السكنى) (به يفتى) (لو ارتدت) لمجيء الفرقة منها قبل تأكده ولو ماتت في العدة ورثها زوجها المسلم استحسانا، وصرحوا بتعزيرها خمسة وسبعين، وتجبر على الإسلام وعلى تجديد النكاح زجرا لها بمهر يسير كدينار وعليه الفتوى ولوالجية.
وأفتى مشايخ بلخ بعدم الفرقة بردتها زجرا وتيسيرا لا سيما التي تقع في المكفر ثم تنكر، قال في النهر: والإفتاء بهذا أولى من الإفتاء بما في النوادر لكن قال المصنف: ومن تصفح أحوال نساء زماننا وما يقع منهن من موجبات الردة مكررا في كل يوم لم يتوقف في الإفتاء برواية النوادر.

رد المحتار: (194/3، ط: دار الفکر)
(قوله قال في النهر إلخ) عبارته: ولا يخفى أن الإفتاء بما اختاره بعض أئمة بلخ أولى من الإفتاء بما
في النوادر، ولقد شاهدنا من المشاق في تجديدها فضلا عن جبره بالضرب ونحوه ما لا يعد ولا يحد. وقد كان بعض مشايخنا من علماء العجم ابتلي بامرأة تقع فيما يوجب الكفر كثيرا ثم تنكر وعن التجديد تأبى، ومن القواعد: المشقة تجلب التيسير والله الميسر لكل عسير. اه.
قلت: المشقة في التجديد لا تقتضي أن يكون قول أئمة بلخ أولى مما في النوادر، بل أولى مما مر أن عليه الفتوى، وهو قول البخاريين لأن ما في النوادر هو ما يأتي من أنها بالردة تسترق تأمل

الفقه الإسلامى و أدلته: (3153/4، ط: دار الفكر)
وأما الفسخ: فهو نقض العقد من أصله، أو منع استمراره، ولا يحتسب من عدد الطلاق، ويكون غالبا في العقد الفاسد أو غير اللازم.
وبه يتبين أن الفسخ يفترق عن الطلاق من ثلاثة أوجه:
الأول: حقيقة كل منهما: فالفسخ: نقض للعقد من أساسه، وإزالة للحل الذي يترتب عليه، أما الطلاق: فهو إنهاء للعقد، ولا يزول الحل إلا بعد البينونة الكبرى (الطلاق الثلاث).
الثاني: أسباب كل منهما: الفسخ يكون إما بسبب حالات طارئة على العقد تنافي الزواج، أو حالات مقارنة للعقد تقتضي عدم لزومه من الأصل. فمن أمثلة الحالات الطارئة: ردة الزوجة أو إباؤها الإسلام أو الاتصال الجنسي بين الزوج وأم زوجته أو بنتها. ومن أمثلة الحالات المقارنة: أحوال خيار البلوغ لأحد الزوجين، وخيار أولياء المرأة التي تزوجت من غير كفء أو بأقل من مهر المثل، ففيها كان العقد غير لازم.
أما الطلاق فلا يكون إلا بناء على عقد صحيح لازم، وهو من حقوق الزوج، فليس فيه مايتنافى مع عقد الزواج أو يكون بسبب عدم لزومه.
الثالث: أثر كل منهما: الفسخ: لا ينقص عدد الطلقات التي يملكها الرجل، أما الطلاق فينقص به عدد الطلقات.
وكذلك فرقة الفسخ لا يقع في عدتها طلاق، إلا إذا كانت بسبب الردة أو الإباء عن الإسلام، فيقع فيهما عند الحنفية طلاق زجرا وعقوبة. أما عدة الطلاق فيقع فيها طلاق آخر، ويستمر فيها كثير من أحكام الزواج. ثم إن الفسخ قبل الدخول لا يوجب للمرأة شيئا من المهر، أما الطلاق قبل الدخول فيوجب نصف المهر المسمى، فإن لم يكن المهر مسمى استحقت المتعة (تعويض بمثابة هدية).

الحیلة الناجزۃ: (ص: 119، ط: دار الاشاعت)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3619 Jan 20, 2022
shohar / khawand / husband ya biwi / zoja / wife murtad hojai / hojaye too nikah ka kia hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.