سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ہمارے والدین کا انتقال ہوگیا ہے،لیکن وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی،کافی عرصہ بعد ہمارے ایک بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ہے، ہماری کوئی بہن نہیں ہے، جس بھائی کا انتقال ہوا ہے، اس کی اولاد نہیں ہے، اب ہم پانچ بھائی اور ایک جس بھائی کا انتقال ہوا ہے، اس کی بیوہ ہے، والدین سے جو وراثت ملنی ہے، وہ کس طرح تقسیم ہوگی؟
جواب: مرحوم والدین اور بھائی کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ایک سو بیس (120) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کی بھابھی کو پانچ (5)، اور آپ پانچ بھائیوں میں سے ہر ایک کو تیئس(23) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں، تو آپ کی بھابھی کو % 4.16 فیصد اور آپ پانچ بھائیوں میں سے ہر ایک کو %19.16 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ....الخ
صحیح البخاری: (باب ميراث الولد من أبيه وأمه، رقم الحدیث: 6732)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا ، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ .
الھندیۃ: (451/6، دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.
فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی