سوال:
مفتی صاحب ! یہ جو درزی کے پاس کپڑا بچ جاتا ہے اور سلوانے والا لے کے بھی نہیں جاتا، نا مانگتا ہے اور نا ہی درزی اسکو واپس کرتا ہے تو اِس صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص اس درزی سے کپڑے کا ٹکڑآ مانگے کہ یہ مجھے دے دو، میں اپنے چھوٹے بچے کا سوٹ بناؤں گا تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہوگا؟
جواب: درزی کے پاس جو کپڑا بچا ہو، اگر وہ ایسی معمولی سی کترن ہو کہ کپڑے کے مالک خود اسے چھوڑ دیتے ہوں اور اسے نہ لے جاتے ہوں، تو ایسی معمولی کترن درزی استعمال کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اتنی معمولی کترن میں مالک کی طرف سے عرفاً اور حکماً اجازت ہوتی ہے، لیکن اگر بچا ہوا ٹکڑا کار آمد ہو اور مالک عموماً ایسے ٹکرے نہ چھوڑتے ہوں تو اگر مالک کی اجازت سے درزی وہ کپڑا اپنے پاس رکھ لے، تب تو وہ استعمال کرسکتا ہے اور اگر مالک کی اجازت نہ ہو یا مالک سے چھپا کر کپڑا بچالے تو یہ کپڑا چوری کا کہلائے گا اور اس کپڑے کا استعمال اس کے لئے جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الاشباہ و النظائر: (243/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه
الفتاوی الھندیۃ: (167/2، ط: دار الفکر)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم
بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی