سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے بھائی بچپن سے مصوری کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ان کا ذریعہ معاش بھی یہ ہی ہے، تین سال پہلے میرے والدین کی وفات ہوگئی، میرے والدین نمازی اور پرہیزگار تھے، پنچ وقتہ نمازوں اور قرآن پابندی سے پڑھتے تھے، والدہ بچوں کو فی سبیل اللہ قرآن پڑھایا کرتی تھیں، بھائی نے انکے مرنے کے بعد ترکہ بھی کسی کو نہیں دیا، نہ ہم لوگوں نے اصرار کیا، کیونکہ بھائی کا کہنا یہ ہے کہ گھر بکنے کے بعد وہ اپنا گھر اس قیمت میں نہیں لے سکیں گے، و الدین کی وفات کے بعد بھائی نے گانے گانے بھی شروع کردیے۔
میں نے اپنے والد کو دو تین دفعہ خواب میں بخار میں مبتلا، ان کی آنکھوں کو دکھتا ہوا اور بہت کمزور دیکھا ہے، مجھے پوچھنا یہ ہے کہ باشعور اولاد کا یہ عمل انکے لیے نقصان کا باعث ہے اور کیا ماں باپ بھی بچوں کے ناجائز کاموں کے ذمہ دار ہوں گے، جبکہ زندگی میں ہی وہ اولاد نافرمان اور پریشان کرنے والی تھی؟
ویسے تو میں روزانہ والدین کی مغفرت کے لیے دعائیں اور درود پاک پڑھ کر بخشتی ہوں، اگر کوئی اور طریقہ ان کے ایصال ثواب کا ہو، تو وہ بھی بتا دیجیئے گا۔ جزاک اللّہ خیراً
جواب: ایصال ثواب کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جتنی توفیق ہو سکے، قرآن کریم پڑھ کر یا مخفی طور پر کچھ صدقہ و خیرات کر کے یا اور کوئی نفلی عمل کرکے اس کا ثواب مرحوم کو بخش دیا جائے۔
نیز باشعور اولاد کا ناجائز عمل ماں باپ کے لیے عذاب کا باعث نہیں ہے، بشرطیکہ ماں باپ نے اولاد کی تربیت کی کوشش کی ہو، اور وہ اپنی زندگی میں ان اعمال پر راضی نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الفاطر، الایۃ: 18)
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى....الخ
تفسیر القرطبی: (338/14، ط: دار الکتب المصریة)
وروي عن عكرمة أنه قال: بلغني أن اليهودي والنصراني يرى الرجل المسلم يوم القيامة فيقول له: ألم أكن قد أسديت إليك يدا، ألم أكن قد أحسنت إليك؟ فيقول بلى. فيقول: انفعني، فلا يزال المسلم يسأل الله تعالى حتى ينقص، من عذابه. وأن الرجل ليأتي إلى أبيه يوم القيامة فيقول: ألم أكن بك بارا، وعليك مشفقا، وإليك محسنا، وأنت ترى ما أنا فيه، فهب لي حسنة من حسناتك، أو احمل عني سيئة، فيقول: إن الذي سألتني يسير، ولكني أخاف مثل ما تخاف. وأن الأب ليقول لابنه مثل ذلك فيرد عليه نحوا من هذا. وأن الرجل ليقول لزوجته: ألم أكن أحسن العشرة لك، فاحملي عني خطيئة لعلي أنجو، فتقول: إن ذلك ليسير ولكني أخاف مما تخاف منه. ثم تلا عكرمة:" وإن تدع مثقلة إلى حملها لا يحمل منه شيء ولو كان ذا قربى ".
الدر المختار: (595/2، ط: دار الفکر)
الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة.
رد المحتار: (595/2، ط: دار الفکر)
(قوله بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام -۔۔۔۔الخ
(قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع. قلت: وشمل إطلاق الغير النبي - صلى الله عليه وسلم - ولم أر من صرح بذلك من أئمتنا، وفيه نزاع طويل لغيرهم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی