سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا ایک دوست ہے، اس نے دو شادیاں کر رکھی ہیں، وہ ہمیں ہمیشہ دوسری شادی کی ترغیب دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دنیا میں عورتیں مردوں کی مقابلے میں زیادہ ہیں، ہم میں سے اکثر دوست تنخواہ دار ہیں اور یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر دوسری شادی کرلیں، تو ایسا نہ ہو کہ گھر کے حالات خراب ہوجائیں، اس سلسلے میں آپ ہماری رہنمائی فرمادیں کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ شکریہ
جواب: قرآن مجید میں ارشاد بارى تعالى ہے، جس کا مفہوم ہے:"اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے، تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو، جو تمہیں پسند آئیں، دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، ہاں! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے، تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے"۔(سورۃ النساء: آیت نمبر: 3)
توضیح القرآن: جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، ایک شخص بیک وقت دس دس، بیس بیس عورتوں کو نکاح میں رکھ لیتا تھا، اس آیت نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد چار تک مقرر فرمادی، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انسان تمام بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کرے، اور اگر بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ایسی صورت میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرمادیا گیا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
ارشاد نبوى ﷺہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے، تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔(سنن أبی داود: حدیث نمبر: 2133)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرد کے لیے ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ انصاف کے ساتھ ان بیویوں کے درمیان برابرى کر سکتا ہو، لہذا اگر کسی شخص کے پاس مالى یا جسمانى استطاعت نہ ہو، اور اسے خوف ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان برابرى قائم نہیں رکھ سکے گا تو اسے ایک سے زائد شادیاں کرنے کى شرعا اجازت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء: الایہ: 3)
"وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ"....الخ
سنن أبي داود: (باب في القَسم بين النساء، رقم الحدیث:2133، 469/3، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
حدَّثنا أبو الوليد الطيالسي، حدَّثنا هَمّام، حدَّثنا قتادةُ، عن النضر ابنِ أنس، عن بَشِير بنِ نَهيك عن أبي هُريرة، عن النبيَّ - صلَّى الله عليه وسلم - قال: "مَن كانت له امرأتانِ، فمال إلى إحداهما جاء يَومَ القيامَةِ وشِقُّه مَائِلٌ".
معالم السنن: (باب الرجل يتزوج امرأة ويشرط لها دارها، 218/3، ط: المطبعۃ العلمیۃ، حلب)
"قال الشيخ في هذا دلالة على توكيد وجوب القسم بين الضرائر الحرائر وإنما المكروه من الميل هو ميل العشرة الذي يكون معه بخس الحق دون ميل القلوب فإن القلوب لا تملك فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي في القسم بين نسائه ويقول اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تواخذني فيما لا أملك، وفي هذا نزل قوله تعالى {ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء ولوحرصتم فلا تميلوا كل الميل فتذروها كالمعلقة} [النساء: 129] ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی