سوال:
ایک قاری صاحب ایک سال سے گھر نہیں گیا، بیوی بچوں کا نان و نفقہ بھی نہیں دے رہا تھا، اس دوران گھر والوں کی جانب سے ان سے کہا گیا ہے کہ بیوی بچوں کو سنبھالتے کیوں نہیں، سال گزر گیا آپ گھر بھی نہیں آئے تو اس قاری صاحب نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو بہت پہلے طلاق دی ہوئی ہے، اس لیے میں اب گھر نہیں جاؤں گا، جب کہ ان کی بیوی کا کہنا ہے کہ مجھے طلاق کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں اور قاری صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے سالے کو میسج کر دیا ہے، جب کہ سالے کا کہنا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے، لہذا مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ بیوی کو طلاق ہو گئی یا نہیں ہوئی؟ اگر طلاق ہو گئی ہے تو رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟ مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ عورت کے علم میں لائے بغیر بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، وقوع طلاق کے لیے عورت کو طلاق کا علم ہونا ضروری نہیں ،شوہر کا اعتراف ہی کافی ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں قاری صاحب نے جس وقت طلاق دی تھی اسی وقت ہی طلاق واقع ہو گئی تھی اور اسی وقت سے ان کی بیوی کی عدت شروع ہو گئی تھی، اب اگر عدت شروع ہونے کے بعد عورت کو تین بار حیض آچکا ہے یا اگر عورت حمل سے ہے اور وضع حمل ہو چکا ہے تو عدت پوری ہو چکی ہے اور اب شوہر
کو رجوع کا اختیار نہیں، لیکن اگر طرفین باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو بقیہ طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا، لیکن اگر عدت نہیں گزری تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ قولی یا فعلی رجوع(بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کر لے یا شہوت سے اس کو چھو لے ) کرلے تو اس سے بیوی نکاح میں لوٹ آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدرالمختار: (باب العدۃ، 504/3، 505، ط: سعید)
ﻭﺃﻧﻮاﻋﻬﺎ ﺣﻴﺾ، ﻭﺃﺷﻬﺮ، ﻭﻭﺿﻊ ﺣﻤﻞ ﻛﻤﺎ ﺃﻓﺎﺩﻩ ﺑﻘﻮﻟﻪ (ﻭﻫﻲ ﻓﻲ) ﺣﻖ (ﺣﺮﺓ) ﻭﻟﻮ ﻛﺘﺎﺑﻴﺔ ﺗﺤﺖ ﻣﺴﻠﻢ…ﻭﺟﺰﻡ ﺑﺄﻥ ﻗﻮﻟﻪ اﻵﺗﻲ " ﺇﻥ ﻭﻃﺌﺖ " ﺭاﺟﻊ ﻟﻠﺠﻤﻴﻊ (ﺛﻼﺙ ﺣﻴﺾ ﻛﻮاﻣﻞ)۔۔۔۔۔(ﻭﻣﺒﺪﺃ اﻟﻌﺪﺓ ﺑﻌﺪ اﻟﻄﻼﻕ ﻭ) ﺑﻌﺪ (اﻟﻤﻮﺕ) ﻋﻠﻰ اﻟﻔﻮﺭ (ﻭﺗﻨﻘﻀﻲ اﻟﻌﺪﺓ ﻭﺇﻥ ﺟﻬﻠﺖ) اﻟﻤﺮﺃﺓ (ﺑﻬﻤﺎ) ﺃﻱ ﺑﺎﻟﻄﻼﻕ ﻭاﻟﻤﻮﺕ ﻷﻧﻬﺎ ﺃﺟﻞ ﻓﻼ ﻳﺸﺘﺮﻁ اﻟﻌﻠﻢ۔
المحیط البرھاني: (الفصل السابع في الخصومات، 50/4، ط: دار الكتب العلمية)
ﻷﻥ اﻟﺰﻭﺝ ﻳﻨﻔﺮﺩ ﺑﺈﻳﻘﺎﻉ اﻟﻄﻼﻕ اﻟﺜﻼﺙ، ﻭﻻ ﻳﺘﻮﻗﻒ ﺫﻟﻚ ﻋﻠﻰ ﻋﻠﻢ اﻟﻤﺮﺃة.
و فيه ايضا: (الفصل السادس والعشرون، 458/3، ط: دار الكتب العلمية)
ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻄﻠﻘﺔ…ﻛﺬا ﺫﻛﺮ اﻟﻜﺮﺧﻲ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ، ﻭاﻟﺸﻬﻮﺭ ﺗﺪﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﻴﺾ ﻓﻴﻤﻦ ﻻ ﺗﺤﻴﺾ ﻟﺼﻐﺮ ﺃﻭ ﻛﺒﺮ ﺃﻭ ﻓﻘﺪ ﺣﻴﺾ. ﻳﻌﻨﻲ ﺑﻪ: اﻵﻳﺴﺔ. ﻭاﻟﺤﺮﺓ ﺗﻌﺘﺪ ﺑﺜﻼﺙ ﺣﻴﺾ…ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺎﻣﻞ ﻋﺪﺗﻬﻤﺎ ﺃﻥ ﺗﻀﻊ ﺣﻤﻠﻬﺎ، اﻟﺤﺮﺓ ﻭاﻷﻣﺔ ﻭاﻟﻤﻄﻠﻘﺔ ﻭاﻟﻤﺘﻮﻓﻰ ﻋﻨﻬﺎ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺳﻮاء؛ ﻷﻥ ﻗﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﻭﺃﻭﻻﺕ اﻷﺣﻤﺎﻝ ﺃﺟﻠﻬﻦ ﺃﻥ ﻳﻀﻌﻦ ﺣﻤﻠﻬﻦ}
(اﻟﻄﻼﻕ: 4)
بدائع الصنائع: (فصل في حكم الطلاق، 391/4، ط: رشیدیه)
ﻓﺈﻥ ﻃﻠﻘﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﺮاﺟﻌﻬﺎ ﺑﻞ ﺗﺮﻛﻬﺎ ﺣﺘﻰ اﻧﻘﻀﺖ ﻋﺪﺗﻬﺎ ﺑﺎﻧﺖ، ﻭﻫﺬا ﻋﻨﺪﻧا۔
و فيه ايضا: (فصل في ركن الرجعة، 399/4، ط: رشیدیه)
ﻭﺃﻣﺎ ﺭﻛﻦ اﻟﺮﺟﻌﺔ ﻓﻬﻮ ﻗﻮﻝ ﺃﻭ ﻓﻌﻞ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺟﻌﺔ: ﺃﻣﺎ اﻟﻘﻮﻝ ﻓﻨﺤﻮ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻬﺎ: ﺭاﺟﻌﺘﻚ ﺃﻭ ﺭﺩﺩﺗﻚ ﺃﻭ ﺭﺟﻌﺘﻚ…ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻔﻌﻞ اﻟﺪاﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺟﻌﺔ ﻓﻬﻮ ﺃﻥ ﻳﺠﺎﻣﻌﻬﺎ ﺃﻭ ﻳﻤﺲ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻦ ﺃﻋﻀﺎﺋﻬﺎ ﻟﺸﻬﻮﺓ ﺃﻭ ﻳﻨﻈﺮ ﺇﻟﻰ ﻓﺮﺟﻬﺎ ﻋﻦ ﺷﻬﻮﺓ ﺃﻭ ﻳﻮﺟﺪ ﺷﻲء ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻫﻬﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺑﻴﻨﺎ،، ﻭﻭﺟﻪ ﺩﻻﻟﺔ ﻫﺬﻩ اﻷﻓﻌﺎﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺟﻌﺔ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻓﻴﻤﺎ ﺗﻘﺪﻡ، ﻭﻫﺬا ﻋﻨﺪﻧﺎ.
فتاوی قاسمیه: (کتاب الطلاق، 241/14، ط: رشیدیه)
طلاق شرعی واقع ہونے کے لیے عورت کا سامنے ہونا یا سننا یا نام لے کر خطاب کرنا شرط نہیں، بلکہ عدم موجودگی میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
و فیه ایضاً: (باب العدۃ، 484/16، 522، ط: رشیدیه)
طلاق کی عدت تین حیض ہے اور جس دن ماہواری سے فارغ ہو جائے گی اسی دن اس کی عدت پوری ہو جائے گی ،اس میں ایام کی تعداد کا اعتبار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ شوہر کے انتقال کے وقت بیوی جب کہ حاملہ تھی تو اس کی عدت وضع حمل ہے، لہذا جب تک حمل باقی ہے عدت ختم نہ ہوگی ،وضع حمل تک انتظار کرنا ضروری ہے۔
فتاوی دارالعلوم کراچی: (امداد السائلین) (کتاب الطلاق، 130/4: ادارۃ المعارف کراچی)
صورۃ مسئولہ میں عورت پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی،عدت طلاق تین حیض ہے، اور اگر عورت حاملہ ہے تو عدت وضع حمل ہے، عدت کے اندر اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کر لیا" بہتر ہے کہ کہتے وقت دو گواہ بھی بنا لے ۔ مگر گواہ بنائے بغیر بھی رجوع صحیح ہو جائے گا۔ اگر عدت کے اندر اندر عورت کے ساتھ ہمبستری کر لی تو اس سے بھی رجوع ہو جائے گا۔ عدت ختم ہونے کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا ،البتہ باہمی رضامندی سے آپس میں دوسرا نکاح جدید مہر کے ساتھ بغیر حلالہ کے کیا جا سکتا ہے۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی