سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب!سوال یہ ہے کہ میں بہت زیادہ پریشان ہو، کہیں سے کچھ بندوبست بھی نہیں ہورہا، تو کیا دینِ اسلام مجھے بینک سے قرض لینے کی اجازت دے گا۔ بہت پریشانی میں ہوں۔
جواب: واضح رہے کہ سودی بینک سے حاصل کئے جانے والا قرض چونکہ سود پر مشتمل ہوتا ہے، اور سود کا لین دین شرعاً ناجائز اور حرام ہے، لہذا سودی بینک سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔
آج کل غیر سودی بینکاری میں چونکہ معاملات سودی لین دین کے بغیر چلائے جاتے ہیں، اور اس کی نگرانی جید مفتیان کرام کررہے ہوتے ہیں، اس لئے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنا معاملہ کسی معتبر غیر سودی بینک سے کرلیں، امید ہے کہ آپ کی ضرورت وہاں سے پوری ہو جائے گی، اور آپ سودی معاملہ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار احیاء التراث العربی)
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی