سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا ماں کی جائیداد میں اولاد کا حق ہے، یا پھر ماں اپنی مرضی سے بیٹے، بیٹیوں کو جو چاہے دے سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شرعی طور پر وراثت انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہوتا ہے، لہذا والدہ اپنی جائیداد میں سے زندگی میں جس کو جو دینا چاہیں، اسے مالک اور قابض بنا کر وہ چیز دے سکتی ہیں، البتہ انتقال کے وقت والدہ جو چیزیں چھوڑیں گی، ان میں شریعت کے مطابق میراث تقسیم ہوگی، اس میں والدہ کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔
اگر والدہ خود اپنی خوشی و رضامندی سے اپنی زندگی میں ہی اپنا مال یا جائیداد تقسیم کرنا چاہیں،
تو اپنے لیے اپنے مال و جائیداد میں سے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز ان پر کسی کا قرض ہو، تو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردیں ،یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیں اتنا ہی بیٹی کو بھی دیں۔
اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بیٹوں کو بیٹیوں سے دو گنا دینا چاہیں، تو وہ بھی جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اسکے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگران میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو،یا دین دار ہو، یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اللباب في شرح الكتاب: (217/2، ط: المكتبة العلمية، بيروت)
ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث.
بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم [الخ].......وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى. .......وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی