سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک مسٔلہ پوچھنا ہے کہ ایک لڑکا جس کا نام زید ہے، اس نے ایک لڑکی جس کا نام پہلے افزا تھا، لڑکی نے بھاگ کر لڑکے سے نکاح کیا تھا، ابھی تک لڑکی کے والدین لڑکی سے قطع تعلق ہیں۔
نکاح لڑکے کے والد نے دو تین گواہوں کی موجودگی میں خود ہی پڑھایا تھا، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نکاح منعقد ہوگیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ نکاح کی مجلس میں ہی لڑکی کا نام افزا بدل کر عائشہ رکھ دیا گیا، یعنی نکاح خواں نے کہا کہ میں زید کا نکاح عائشہ سے کرتا ہوں، اور ان کا ارادہ ہے کہ اب لڑکی کا نام نکاح فارم میں عائشہ ہی لکھوائیں گے، اور شناختی کارڈ میں بھی یہ ہی نام ہوگا۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اب لڑکے والے اس چھپ کر کیے ہوئے نکاح کو لوگوں کے سامنے دوبارہ پڑھوانا چاہتے ہیں، تاکہ یہ سب کے سامنے آجائے۔ کیا ایسا کرسکتے ہیں؟
جواب: (1) اگر واقعتاً نکاح سے پہلے ہی لڑکی شیعہ عقیدہ سے توبہ کرچکی تھی، نیز نکاح کے وقت وہ عاقلہ بالغہ تھی، اور اس نے اپنی مرضی سے مہرِ مثل کے ساتھ شرعی شرائط کے مطابق اس لڑکے سے نکاح کیا ہو، تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اور ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز ہے۔
(2) جی ہاں ! "افزا" نام بدل کر "عائشہ" نام رکھنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اور یہی نام شناختی کارڈ وغیرہ میں بھی لکھوایا جاسکتا ہے۔
(3) دوبارہ نکاح پڑھوانا بھی جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (55/3، ط: الحلبي، بيروت)
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا.
رد المحتار: (42/1، ط: الحلبي، بيروت)
والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير.
و فيه أيضا: (113/3)
تنبيه: في القنية: جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اه أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی