سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا ایک بھائی ہے، جو عقل کے اعتبار سے کچھ کمزور ہے، مزاج میں بچپنا ہے، اگرچہ عمر زیادہ ہے، اس نے اپنی بیوی سے جھگڑے کے وقت یہ کہہ دیا کہ "اگر میں نے تمہیں ہاتھ لگایا، تو تو مجھ پر طلاق ہے" اس لفظ سے کونسی طلاق واقع ہوتی ہے؟ اور کیا ایسے شخص کی طلاق واقع ہوتی ہے، جو عقل کے اعتبار سے کمزور ہو، اور شرعی احکامات سے ناواقف ہو، اور اب طلاق سے بچنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کا بھائی مجنون یا معتوہ نہیں ہو، اگرچہ عقل کے اعتبار سے کچھ کمزور ہو، تو ذکر کردہ صورت میں بیوی کو چھونے سے ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی، جس کے بعد شوہر عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، عدت گزرنے کے بعد شوہر کو رجوع کا اختیار حاصل نہیں رہے گا۔
البتہ عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر سکتے ہیں، اس صورت میں شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (243/3، ط: سعید)
(لا یقع طلاق المولی علی امرأۃ عبدہ، و المجنون، و الصبی، و المعتوہ۔۔۔)
وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون.
الھندیة: (420/1، ط: مکتبة رشیدیة)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی