عنوان: ری سیلنگ (Reselling)کرکے آمدنی کمانے کا حکم(9231-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ریسیلنگ کرکے ارننگ کرنے کا کیا حکم ہے؟ تفصیل یہ ہے کہ ایک کمپنی/فیکٹری والے اپنی پروڈکٹس کی تصاویر بناکر اسکی ڈسکرپشن اور قیمت لکھ کر لوگوں کو سینڈ کر کے کہتے ہیں کہ آپ ہماری مقرر کردہ قیمت سے زائد جتنا آپ مارجن رکھنا چاہتے ہو، لکھ کر سوشل میڈیا پر ورک کرو، اور کسٹمر تلاش کر کے ہمیں آرڈر بھیجو، ہم وہ پروڈکٹ کسٹمر کو ڈیلیور کر کے قیمت وصول کرینگے اور اپنی مقرر کردہ قیمت اٹھا کر زائد رقم آپ کو بھیج دینگے، تو اس طرح ریسیلنگ کر کے ہمارے لیے ارننگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مذکورہ معاملے میں ری سیلر کمیشن ایجنٹ ہے، اور اس کو اپنی سروس کا معاوضہ مل رہا ہے، کسی کا ایجنٹ بن کر طے شدہ اجرت کے عوض مال بکوانا بذات خود ایک جائز معاملہ ہے، لیکن سوال میں ذکر کردہ صورت میں ایجنٹ (Reseller) کی اجرت واضح طور پر طے نہیں کی گئی، بلکہ کمپنی کی مقرر کردہ قیمت سے زائد جتنے میں بکے، اس اضافی رقم کو اجرت ٹھہرایا گیا ہے، اور وہ اضافی اجرت غیر معلوم (مجہول) ہے کہ پتہ نہیں کہ وہ چیز کتنے میں بکے گی، اس لیے ایسا معاملہ اصولی طور پر فاسد اور غلط ہے، (البتہ اگر کسی نے اس طرح معاملہ کرلیا، تو اس کی کمائی کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا)
اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایجنٹ کا یا تو فیصد کے اعتبار سے کمیشن طے کرلیا جائے، یا ایک متعین رقم بطور اجرت طے کرکے معاملہ کیا جائے۔
نیز اگر بنیادی اجرت طے ہونے کے ساتھ ایجنٹ کو کمپنی کی مقرر کردہ قیمت سے اضافی مارجن بھی دیا جائے، تب بھی معاملہ درست ہوجائے گا، کیونکہ بنیادی اجرت طے ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (باب الاجارۃ الفاسدۃ، 39/5)
اجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکّاک وما لایقدّر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہٖ حاجۃ

عمدة القاري: (93/12، ط: دار احیاء التراث العلمی)
وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك
هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه.
وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به۔ هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين، وفي (التلويح) : وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه: الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك: لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق

النتف في الفتاوى: (575/2، ط: دار الفرقان، موسسة الرسالة، بيروت)
"والْخَامِس اجارة السمسار لايجوز ذَلِك وَكَذَلِكَ لَو قَالَ بِعْ هَذَا الثَّوْب بِعشْرَة دَرَاهِم فَمَا زَاد فَهُوَ لَك وان فعل فَلهُ اجْرِ الْمثل"

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1593/32

و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 935 Jan 31, 2022
reselling karke amadni kamaney ka hokum / hokom

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.