عنوان: اپنے خفیہ گناہ کا دوست کے سامنے تذکرہ کرنا(9234-No)

سوال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا، سوائے گناہوں کو اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا، رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا"۔
میں نے سنا ہے کہ اگر انسان آسمان و زمین کو گناہوں سے بھر دے اور سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔
میرا ایک دوست ہے جو 18 سال کی عمر میں ایک لڑکی سے زنا کا مرتکب ہو گیا تھا، لیکن جب اُسے گناہ کا پتا چلا تو وہ بہت بے چین، پریشان اور گھبرایا ہوا تھا، اُس نے سچے دل سے رو رو کر گڑگڑا کر توبہ کی اور اب سب ہی گناہوں سے دور رہتا ہے، لیکن اُس سے یہ غلطی ہُوئی کہ اُس نے اللہ کے رکھے ہوئے پردہ کو ہٹادیا اور اپنے کیے ہوئے گناہ کے بارے میں مجھے بتادیا۔
جب سے یہ حدیث سنی ہے، میرا دوست تب سے مایوسی اور نا اُمیدی میں ڈوب گیا ہے، نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ ہی کچھ کام کرتا ہے، آپ رہنمائی فرمادیجئے کہ کیا میرے دوست کے لیے معافی کی گنجائش ہے، کیا اُس کی توبہ قبول ہوگی؟

جواب: اللہ تعالى کى رحمت وسیع ہے، اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالى کفر وشرک کے علاوہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔(سورۃ النساء: آیت نمبر: 48)
"کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔(سورۃ الزمر،آیت نمبر:53)
تفسیر: یعنی اگر کسی شخص نے ساری زندگی کفر، شرک یا گناہوں میں گزاری ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اب اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے جس وقت بھی انسان اپنی اصلاح کا پختہ ارادہ کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی پچھلی زندگی کی معافی مانگے اور توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔(آسان ترجمہ قرآن)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ شرک کے علاوہ تمام گناہ، چاہے وہ خفیہ ہوں یا اعلانیہ ہوں، بشرطیکہ ان گناہوں سے سچى توبہ کى جائے تو وہ قابل معافی ہیں اور شرک سے بھی اگر سچی توبہ کر لی جائے، یعنی اسلام قبول کر کے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کر لیا جائے تو وہ بھی معاف ہو جائے گا۔
باقی جہاں تک سوال میں بیان کی گئی حدیث کا تعلق ہے تو اس حدیث کی تشریح میں محدثین نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ جس شخص پر اللہ تعالى نے اپنا پردہ رکھا ہو، وہ اگر سر عام اپنے گناہ کا تذکرہ کرے تو وہ گویا بطورِ فخر اور سرکشى اس کو بیان کر رہا ہے جو ایک طرف کھلم کھلا اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے اور دوسری طرف احکام شریعت کا مذاق اڑانا اور ان کی توہین کرنے کے مترادف ہے، عام طور پر ایسے سرکش کو توبہ کى توفیق نہیں ہوتى، اس لیے جب وہ اس گناہ سے توبہ ہی نہیں کرتا تو اس کى معافى نہیں ہوگی، لیکن اگر کوئى شخص اپنی اس حرکت پر دل سے پشیمان اور شرمندہ ہو اور وہ خوب گڑگڑا کر اللہ تعالى سے توبہ واستغفار کرے تو چونکہ وہ سرکشی اختیار نہیں کر رہا ہے، اس لیے اس کے اس گناہ پر کی گئی توبہ سے معافی ہو جائے گی۔ جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے: "گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، گویا اس نے کوئى گناہ کیا ہى نہیں ہے"۔ (سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 4250)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء: الآیة: 48)
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًاo

و قوله تعالیٰ: (الزمر، الآیة: 53)
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُo

تفسير ابن كثير: (النساء، الاية: 92- 93، 209/4، ط: مؤسسة قرطبة)
"وقال تعالى "قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله " الآية وهذا عام في جميع الذنوب من كفر وشرك وشك ونفاق وقتل وفسق وغير ذلك كل من تاب أي من ذلك تاب الله عليه قال الله تعالى " إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء " فهذه الآية عامة في جميع الذنوب ما عدا الشرك وهي مذكورة في هذه السورة الكريمة بعد هذه الآية وقبلها لتقوية الرجاء والله أعلم".

فتح الباري لابن حجر: (قوله باب ستر المؤمن على نفسه، 487/10، ط: دار المعرفة)
"قال ابن بطال في الجهر بالمعصية استخفاف بحق الله ورسوله وبصالحي المؤمنين وفيه ضرب من العناد لهم وفي الستر بها السلامة من الاستخفاف لأن المعاصي تذل أهلها ومن إقامة الحد عليه إن كان فيه حد ومن التعزير إن لم يوجب حدا وإذا تمحض حق الله فهو أكرم الأكرمين ورحمته سبقت غضبه فلذلك إذا ستره في الدنيا لم يفضحه في الآخرة والذي يجاهر يفوته جميع ذلك وبهذا يعرف موقع إيراد حديث النجوى عقب حديث الباب وقد استشكلت مطابقته للترجمة من جهة أنها معقودة لستر المؤمن على نفسه والذي في الحديث ستر الله على المؤمن والجواب أن الحديث مصرح بذم من جاهر بالمعصية فيستلزم مدح من يستتر وأيضا فإن ستر الله مستلزم لستر المؤمن على نفسه فمن قصد إظهار المعصية والمجاهرة بها أغضب ربه فلم يستره ومن قصد التستر بها حياء من ربه ومن الناس من الله عليه بستره إياه".

سنن ابن ماجة: (كتاب الزهد/ باب ذكر التوبة، رقم الحدیث: 4250، 640/5، ط: دار الجيل)
حدثنا أحمد بن سعيد الدارمي ، قال : حدثنا محمد بن عبد الله الرقاشي ، قال : حدثنا وهيب بن خالد ، قال : حدثنا معمر ، عن عبد الكريم ، عن أبي عبيدة بن عبد الله ، عن أبيه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "التائب من الذنب ، كمن لا ذنب له".

مسند أحمد: (45/37، رقم الحدیث: 22362، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا حسن، وحجاج قالا: حدثنا ابن لهيعة، حدثنا أبو قبيل قال: سمعت أبا عبد الرحمن المري يقول: قال حجاج: عن أبي قبيل، حدثني أبو عبد الرحمن الجبلاني، أنه سمع ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما أحب أن لي الدنيا وما فيها بهذه الآية: {يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله، إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم} فقال رجل: يا رسول الله، فمن أشرك؟ فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: " إلا من أشرك إلا من أشرك " ثلاث مرات.

المستدرك على الصحيحين للحاكم: (رقم الحدیث: 195، 126/1، دار الكتب العلمية)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ، بِبَغْدَادَ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْهَيْثَمِ الْقَاضِي وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدُنَا يُذْنِبُ، قَالَ: «يُكْتَبُ عَلَيْهِ» قَالَ: ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ مِنْهُ وَيَتُوبُ، قَالَ: «يُغْفَرُ لَهُ وَيُتَابُ عَلَيْهِ وَلَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا» . وقال: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 730 Jan 31, 2022
apne khufya gunah ka dost k / kay samne tazkira karna, kia is gunah ki toba he / hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.