عنوان: کیا طلاق کا کوئی کفارہ ہے؟ نیز کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے؟ (9251-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میری شادی کو 13 سال ہوگئے ہیں، میرے شوہر نے 13 جنوری 2022ء کو دوسری شادی کرلی ہے، اور شادی کے ایک ہفتہ بعد انہوں نے مجھے یونین کونسل لے جاکر اجازت نامہ پر دستخط کروائے۔
وہ دوسری شادی کے لیے بضد تھے، اور میں جب ان کو اجازت نہیں دے رہی تھی، تو انہوں نے 5 دسمبر 2021ء کی رات کو غصہ میں آکر مجھے ایک طلاق دی، اور اسی رات میرے شوہر نے مجھ سے مافی مانگی، اور 8 دن کے بعد مجھ سے رجوع کیا، اب مجھے یہ بتائیں کہ اس طلاق کا کوئی کفارہ بنتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے شوہر اب بھی مجھے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر تم میری دوسری بیوی کی راہ میں رکاوٹ بنی، تو میں تمھیں باقی دو طلاقیں دے کر فارغ کردوں گا۔ آپ بتائیں کیا کوئی ایسا وظیفہ ہے، جس سے میرے شوہر مجھے بار بار یہ جملہ دوھرا کر ذہنی اذیت نہ دیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔ شکریہ

جواب: 1- واضح رہے کہ طلاقِ رجعی کا سوائے "رجوع" کے اور کوئی کفارہ نہیں ہے، لہذا اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دی ہو اور پھر وہ عدت کے اندر اندر اپنی بیوی سے قول یا فعل (مباشرت وغیرہ) کے ذریعے رجوع کر لے، تو بغیر تجدیدِ ِنکاح کے بیوی اس کے لیے حلال ہو جاتى ہے، البتہ اسے آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوتا ہے۔
2- جو شخص ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان عدل و انصاف کر سکے، اور ان کے حقوق میں کوتاہى نہ کرے، تو شریعت نے ایسے مرد کو بیک وقت ایک سے زیادہ چار تک عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے اور یہ اجازت پہلے سے نکاح میں موجود بیوی کی رضامندی پر موقوف نہیں ہوتى ہے۔
اور اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ بیویاں رکھ کر ان کے درمیان برابری نہ کرے، تو وہ سخت گنہگار ہوگا، اور قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ فالج زدہ ہوگا۔
ارشاد نبوى صلى اللہ علیہ وسلم ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے، تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔
(سنن أبی داود: حدیث نمبر: 2133)
صورتِ مسئولہ میں بقول آپ کے، آپ کے شوہر نے طلاق کے آٹھ دن بعد رجوع کر لیا تھا، تو آپ ان کے لیے حلال ہو گئی ہیں، اب ان کو مزید دو طلاقوں کا اختیار باقی ہے۔
البتہ یہ بات واضح رہے کہ طلاق بہت نا گزیر حالات میں دی جاتی ہے، حدیث مبارک میں ہے: "طلاق حلال چیزوں میں سے اللہ تعالى کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔" (سنن ابی داؤد)
لہذا بات بات پر طلاق کے ذریعے دھمکانا شرعاً ناپسندیدہ اور غیر شریفانہ حرکت ہے، اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے رویے سے اجتناب کرے، تاہم چونکہ مرد کو ایک سے زائد نکاح کی شرعاً اجازت ہے، نیز اس کے نتیجے میں اگرچہ طبعی طور پر بعض عورتوں کو صدمہ ہوتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آجاتی ہے، لہذا آپ کوشش کریں کہ اپنے آپ کو اس صدمے کی کیفیت سے باہر نکالیں، اور اپنے شوہر کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کے دل نرم ہونے کی دعا بھی کرتی رہیں اور اپنی طرف سے ایسا کوئی رویہ اختیار نہ کریں، جس سے مزید ناچاقی بڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء: الآية: 3)
"وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ"....الخ

سنن أبي داود: (باب في القَسم بين النساء، رقم الحدیث: 2133، 469/3، ط: دار الرسالة العالمیة)
حدَّثنا أبو الوليد الطيالسي، حدَّثنا هَمّام، حدَّثنا قتادةُ، عن النضر ابنِ أنس، عن بَشِير بنِ نَهيك عن أبي هُريرة، عن النبيَّ - صلَّى الله عليه وسلم - قال: "مَن كانت له امرأتانِ، فمال إلى إحداهما جاء يَومَ القيامَةِ وشِقُّه مَائِلٌ".

معالم السنن: (باب الرجل يتزوج امرأة ويشرط لها دارها، 218/3، ط: المطبعة العلمیة، حلب)
"قال الشيخ في هذا دلالة على توكيد وجوب القسم بين الضرائر الحرائر وإنما المكروه من الميل هو ميل العشرة الذي يكون معه بخس الحق دون ميل القلوب فإن القلوب لا تملك فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي في القسم بين نسائه ويقول اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تواخذني فيما لا أملك، وفي هذا نزل قوله تعالى {ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء ولوحرصتم فلا تميلوا كل الميل فتذروها كالمعلقة} [النساء: 129] "

سنن أبي داود: (باب في كراهية الطلاق، رقم الحدیث: 2178، 255/2، ط: المکتبة العصریة)
حدثنا كثير بن عبيد، حدثنا محمد بن خالد، عن معرف بن واصل، عن محارب بن دثار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق".

الدر المختار: (كتاب الطلاق، باب الرجعة، 398/3، ط: دار الفكر)
"وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطأ ( بنحو ) متعلق باستدامة ( راجعتك ورددتك ومسكتك ) بلا نية لأنه صريح ( و ) بالفعل مع الكراهة۔وقال ابن عابدين : وهذا بيان لركنها وهو قول أو فعل ،والأول قسمان صريح كما مثل وكناية مثل أنت عندي كما كنت وأنت امرأتي فلا يصير مراجعا إلا بالنية ۔۔۔ قوله ( وبالفعل ) هذا ليس من الصريح ولا الكناية لأنهما من عوارض اللفظ فافهم نعم ظاهر كلامهم أن الفعل في حكم الصريح لثبوت الرجعة به من المجنون".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1308 Feb 02, 2022
kia talaq ka koi kaffara he / hae / hay?niez kia dosri shadi ke / kay liye pehli biwi ki ijazat zarori he / hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.