عنوان: نماز میں خشوع وخضوع کا مفہوم اور اسے پیدا کرنے کی اہم تدابیر (9253-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! نماز میں دھیان رکھنے کا کوئی طریقہ بتادیں۔ خصوصاً جن رکعات میں تلاوت نہیں ہوتی، کیونکہ ان رکعات میں نماز کی طرف بالکل دھیان نہیں جاتا، اگر نماز میں دھیان رکھنے کا کوئی طریقہ ہو، تو براہ کرم بتادیں۔

جواب: خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا کامیاب مؤمن کی صفات میں سے ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اُن ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے، جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں"۔
(سورۃ المؤمنون: آیت نمبر: 1-2)
تفسیر:
عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے، تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔
(آسان ترجمہ قرآن: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم)
نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی مختلف تدبیریں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند مجرب تدابیر کو ذکر کیا جاتا ہے:
1- نماز پڑھتے ہوئے نیت میں اخلاص پیدا کیا جائے، حدیث شریف میں دکھاوے کی نماز کو چھپا ہوا شرک قرار دیا گیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 4204)
2- نماز سے پہلے ظاہری وضع قطع کو سنوارا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ"۔
(سورہ الاعراف: آیت نمبر: 31)
چو نکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے، لہذا اگر ظاہر صاف ستھرا اور اجلا ہو گا، تو نماز میں دلجمعی بڑھے گی، اور اگر ظاہری حالت میلی کچیلی ہو، تو پھر باطن اور دل بھی پراگندہ ہوگا، اور اس پر طرح طرح کے خیالات کا ھجوم ہوگا۔
3- طہارت کا خوب اہتمام کیا جائے، وضو کے دوران آداب و سنن کا اہتمام کیا جائے، پانی کے اسراف سے بچا جائے۔
4- اپنے مشاغل سے فارغ ہو کر نماز کے لیے یکسوئی اختیار کی جائے، اپنے آپ کو دوسرے مشاغل سے فارغ کیا جائے، تاکہ دوران نماز ان کی طرف دھیان نہ جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لہذا جب تم فارغ ہوجاؤ تو (عبادت میں) اپنے آپ کو تھکاؤ۔
(سورہ الم نشرح: آیت نمبر: 7)
5- نماز شروع کرتے وقت دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اپنی انتہائی عاجزی کو سوچا جائے۔
6- اگر کوئی شخص قرآن کریم کے معانی ومفہوم کو سمجھتا ہو، اور وہ اکیلا نماز پڑھ رہا ہو، تو وہ نماز کے دوران تلاوت کرتے وقت معنی پر غور و فکر کرے، اگر امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے، تو خوب توجہ سے تلاوت کو سنے۔
7- نماز کے دوران نظروں کی حفاظت کی جائے، یعنی قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر، رکوع کی حالت میں پاؤں پر، سجدے میں ناک پر اور جلسے کی حالت میں گود پر نظروں کو جما کر رکھا جائے۔

8- تلاوت کے وقت یہ سوچے کہ مجھے کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہو رہا ہے، اور سجدے کی حالت میں یہ سوچے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نہایت قریب ہو گیا ہوں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور سجدہ کرو، اور قریب آجاؤ۔
(سورہ العَلَق: آیت نمبر: 19)
تفسیر:
یہ بڑا پیار بھرا فقرہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سجدے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا خاص قرب عطا ہوتا ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن)
9- آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا تیر بہدف نسخہ
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے نصیحت فرمائیے مگر ہو مختصر: اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(1) جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو، تو (دنیا کو) الوداع کرنے والے کی نماز جیسی نماز پڑھو، (یعنی یہ سوچ کر نماز پڑھو کہ یہ تمہاری آخری نماز ہے، تجربہ شاھد ہے کہ اس تصور کے بعد خشوع وخضوع پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے)۔
(2) اور کبھی ایسی بات مت کہو، جس سے کل کو تمہیں معذرت کرنی پڑے۔ (یعنی سوچ سمجھ کر بولو)۔
(3) اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے، اس سے ناامید ہو جاؤ۔ (یعنی لوگوں سے امیدیں مت رکھو)۔
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 4171، مسند أحمد: حدیث نمبر: 23498)
10-اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ سے خشوع وخضوع پیدا ہونے کی دعا بھی مستقل کرتے رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (الأعراف، الآية: 31)
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَo.

و قوله تعالی: (المؤمنون، الآية: 1,2)
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙo الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙo.

و قوله تعالی: (الم نشرح، الآية: 7)
فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ ۙo

و قوله تعالی: (العلق، الآية: 19)
کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡo.

أحكام القرآن للجصاص: (329/3، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
"قال الله تعالى: {قد أفلح المؤمنون الذين هم في صلاتهم خاشعون} روى ابن عون عن محمد بن سيرين قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى رفع رأسه إلى السماء، فلما نزلت: {الذين هم في صلاتهم خاشعون} نكس رأسه. وروى هشام عن محمد قال: "لما نزلت: {الذين هم في صلاتهم خاشعون} خفضوا أبصارهم فكان الرجل يحب أن لا يجاوز بصره موضع سجوده". وروي عن جماعة: "الخشوع في الصلاة أن لا يجاوز بصره موضع سجوده". وروي عن إبراهيم ومجاهد والزهري: "الخشوع السكون". وروى المسعودي عن أبي سنان عن رجل منهم قال: سئل علي عن قوله: {الذين هم في صلاتهم خاشعون} قال: "الخشوع في القلب وأن تلين كنفك للمرء المسلم ولا تلتفت في صلاتك "وقال الحسن: "خاشعون خائفون".
قال أبو بكر: الخشوع ينتظم هذه المعاني كلها من السكون في الصلاة والتذلل وترك الالتفات والحركة والخوف من الله تعالى وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "اسكنوا في الصلاة وكفوا أيديكم في الصلاة" وقال: "أمرت أن أسجد على سبعة أعضاء وأن لا أكف شعرا ولا ثوبا"، وأنه نهى عن مس الحصى في الصلاة وقال: "إذا قام الرجل يصلي فإن الرحمة تواجهه فإذا التفت انصرفت عنه". وروى الزهري عن سعيد بن المسيب: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلمح في الصلاة ولا يلتفت. وحدثنا محمد بن بكر قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا أبو توبة قال: حدثنا معاوية بن سلام عن زيد بن سلام أنه سمع أبا سلام قال: حدثني السلولي أنه حدثه سهل بن الحنظلية أنهم ساروا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، وذكر الحديث إلى قوله: "من يحرسنا الليلة؟ " قال أنس بن أبي مرثد الغنوي: أنا يا رسول الله، قال: "فاركب! " فركب فرسا له، فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "استقبل هذا الشعب حتى تكون في أعلاه ولا يغرن من قبلك الليلة" فلما أصبحنا خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مصلاه فركع ركعتين ثم قال: "هل أحسستم فارسكم؟ " قالوا: يا رسول الله ما أحسسناه، فثوب بالصلاة، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو يلتفت إلى الشعب حتى إذا قضى صلاته وسلم قال: "أبشروا فقد جاءكم فارسكم". فأخبر في هذا الحديث أنه كان يلتفت إلى الشعب وهو في الصلاة، وهذا عندنا كان عذرا من وجهين: أحدهما: أنه لم يأمن من مجيء العدو من تلك الناحية، والثاني: اشتغال قلبه بالفارس إلى أن طلع. روي عن إبراهيم النخعي أنه كان يلحظ في الصلاة يمينا وشمالا. وروى حماد بن سلمة عن حميد عن معاوية بن قرة قال: قيل لابن عمر: إن ابن الزبير إذا صلى لم يقل هكذا ولا هكذا قال: لكنا نقول هكذا وهكذا ونكون مثل الناس. روي عن ابن عمر أنه كان لا يلتفت في الصلاة، فعلمنا أن الالتفات المنهي عنه أن يولي وجهه يمنة ويسرة، فأما أن يلحظ يمنة ويسرة فإنه غير منهي عنه. روى سفيان عن الأعمش قال: "كان ابن مسعود إذا قام إلى الصلاة كأنه ثوب ملقى". وروى أبو مجلز عن أبي عبيدة قال: "كان ابن مسعود إذا قام إلى الصلاة خفض فيها صوته وبدنه وبصره". وروى علي بن صالح عن زبير اليامي قال: "كان إذا أراد أن يصلي كأنه خشبة".

سنن ابن ماجة: (باب الریاء والسمعۃ، رقم الحدیث: 4204، 614/5، ط: دار الجيل)
حدثنا عبد الله بن سعيد ، قال : حدثنا أبو خالد الأحمر ، عن كثير بن زيد ، عن ربيح بن عبد الرحمن بن أبي سعيد الخدري ، عن أبيه ، عن أبي سعيد ، قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتذاكر المسيح الدجال ، فقال : "ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال ؟" قال : قلنا : بلى ، فقال : "الشرك الخفي ، أن يقوم الرجل يصلي ، فيزين صلاته ، لما يرى من نظر رجل".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (92/4، رقم الحدیث: 37393، دار إحیاء التراث العربی)
حدّثنا أحْمَدُ بنُ يُونُسَ قالَ حدّثنا إبْراهِيمُ بنُ سَعْدٍ قالَ حدّثنا ابنُ شِهَابٍ عنْ عُرْوَةَ عنْ عائِشَةَ أنَّ النبيَّ صلَّى فِي خمِيصةٍ لَها أعْلاَمٌ فَنَظَرَ إِلَى أعْلاَمِها نَظْرَةً فَلَمَّا انْصَرَف قالَ اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أبي جَهْمٍ وأتُونِي بأنْبِجانِيَّةِ أبي جَهْمٍ فإِنَّهَا ألْهَتْنِي آنِفاً عنْ صَلاَتي. ذكر مَا يستنبط مِنْهُ من الْأَحْكَام فِيهِ:...وَفِيه: طلب الْخُشُوع فِي الصَّلَاة والإقبال عَلَيْهَا وَنفي كل مَا يشغل الْقلب ويلهي عَنهُ، وَلِهَذَا قَالَ أَصْحَابنَا: الْمُسْتَحبّ أَن يكون نظره إِلَى مَوضِع سُجُوده، لِأَنَّهُ أقرب إِلَى التَّعْظِيم من إرْسَال الطّرف يَمِينا وَشمَالًا. وَفِيه: الْمُبَادرَة إِلَى ترك كل مَا يلهي ويشغل الْقلب عَن الطَّاعَة والإعراض عَن زِينَة الدُّنْيَا والفتنة بهَا. وَفِيه: منع النّظر وَجمعه عَمَّا لَا حَاجَة بالشخص إِلَيْهِ فِي الصَّلَاة وَغَيرهَا، وَقد كَانَ السّلف لَا يخطىء أَحدهمَا مَوضِع قَدَمَيْهِ، إِذا مَشى...الخ

مسند أحمد: (484/38، رقم الحدیث: 23498، ط: الرسالة)
حدثنا علي بن عاصم، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن عثمان بن جبير، عن أبي أيوب الأنصاري قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: عظني وأوجز، فقال: " إذا قمت في صلاتك فصل صلاة مودع، ولا تكلم بكلام تعتذر منه غدا، واجمع الإياس مما في يدي الناس ".

سنن ابن ماجه: (باب الحکمۃ، 594/5، رقم الحدیث: 4171، ط: دار الجيل)
حدثنا محمد بن زياد ، قال : حدثنا الفضيل بن سليمان ، قال : حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم قال : حدثني عثمان بن جبير ، مولى أبي أيوب ، عن أبي أيوب ، قال : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : يا رسول الله ، علمني ، وأوجز ، قال : إذا قمت في صلاتك فصل صلاة مودع ، ولا تكلم بكلام تعتذر منه ، وأجمع اليأس عما في أيدي الناس.

سنن ابن ماجة: (باب الخشوع في الصلاة، 260/2، رقم الحدیث: 1043، ط: دار الجيل)
حدثنا عثمان بن أبي شيبة ، قال : حدثنا طلحة بن يحيى ، عن يونس ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "لا ترفعوا أبصاركم إلى السماء أن تلتمع , يعني في الصلاة".

العرف الشذي شرح سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 385، 365/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
حدثنا سويد بن نصر قال: حدثنا عبد الله بن المبارك قال: أخبرنا الليث بن سعد قال: حدثنا عبد ربه بن سعيد، عن عمران بن أبي أنس، عن عبد الله بن نافع ابن العمياء، عن ربيعة بن الحارث، عن الفضل بن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصلاة مثنى مثنى، تشهد في كل ركعتين، وتخشع، وتضرع، وتمسكن، وتقنع يديك، يقول: ترفعهما إلى ربك، مستقبلا ببطونهما وجهك، وتقول: يا رب يا رب، ومن لم يفعل ذلك فهو كذا وكذا "،: وقال غير ابن المبارك في هذا الحديث: «من لم يفعل ذلك فهي خداج»: سمعت محمد بن إسماعيل يقول: " روى شعبة هذا الحديث عن عبد ربه بن سعيد فأخطأ في مواضع، فقال: عن أنس بن أبي أنس، وهو عمران بن أبي أنس، وقال: عن عبد الله بن الحارث، وإنما هو عبد الله بن نافع ابن العمياء، عن ربيعة بن الحارث، وقال شعبة: عن عبد الله بن الحارث، عن المطلب، عن النبي صلى الله عليه وسلم وإنما هو عن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، عن الفضل بن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم "، قال محمد: «وحديث الليث بن سعد أصح من حديث شعبة".
قال علماء اللغة: إن الخشوع يتعلق بالعين والرأس والصوت والعنق، والخضوع يتعلق بالقلب، وقال الحذاق من أرباب اللغة لا ترادف في الألفاظ، والمختار هو هذا القول، وأما الخضوع والخشوع في الصلاة المذكور في حديث الباب لم أجده في عامة كتبنا فكنت مترددا في ما ذكر إلى أن رأيت استحباب التخشع في الاختيار شرح المختار وهو من معتبراتنا ولا يتوهم أن القرآن يأمر بالخشوع وأوامر القرآن للإيجاب، فيجب الخشوع سيما إذا كان من روح الصلاة، لأن الفقيه إنما يتعرض إلى أحوال عامة الناس ويلتفت إليها، ومن المعلوم أن التخشع من العامة متعذر، فقال الفقيه بالاستحباب لا بالوجوب فالخشوع مستحب، وأما الاختيار في الصلاة فمن شروطها، فإنه إذا سجد أو ركع وهو نائم لا يعتد به. فائدة: في كتب الأحناف أن المصلي ينظر في حال القيام إلى موضع سجوده، وفي الركوع إلى ظهري رجليه، وفي السجود إلى أنفه، وفي القعود إلى حجره، وإني تتبعت مأخذ هذه المسألة فوجدت في متن المبسوط للجوزجاني تلميذ محمد بن حسن أنه ينظر في حال القيام إلى موضع السجود، وفي كتاب الصلاة لأحمد بن حنبل أن المصلى ينحني رأسه في القيام".

إرشاد الساري شرح صحيح البخاري: (باب الخشوع فی الصلاۃ، 76/2، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)
"الصلاة صلة العبد بربه، فمن تحقّق بالصلة في الصلاة لمعت له طوالع التجلي، فيخشع. وقد شهد القرآن بفلاح مُصلِّ خاشع قال الله تعالى: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ} [المؤمنون: 1، 2]. أي: خائفون من الله، متذللون له، يلزمون أبصارهم مساجدهم.
وعلامة ذلك أن لا يلتفت الصلي يمينًا ولا شمالاً. ولا يجاوز بصره موضع سجوده. صلّى بعضهم في جامع البصرة فسقطت ناحية من المسجد، فاجتمع الناس عليها ولم يشعر هو بها. والفلاح أجمع اسم لسعادة الآخرة، وفقد الخشوع ينفيه، وقد قال تعالى: {وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14]. وظاهر الأمر الوجوب، فالغفلة ضد، فمن غفل في جميع صلاته كيف يكون مقيمًا للصلاة لذكره تعالى، فافهم واعمل، فليقبل العبد على ربه، ويستحضر بين يدي من هو واقف. كان مكتوبًا في محراب داود عليه الصلاة والسلام، أيها المصلي، من أنت ولمن أنت؟ وبين يدي من أنت، ومن تناجي؟ ومن يسمع كلامك، ومن ينظر إليك؟ وقال الخراز: ليكن إقبالك على الصلاة كإقبالك على الله يوم القيامة، ووقوفك بين يديه وهو مقبل عليك وأنت تناجيه".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2405 Feb 02, 2022
namaz me / mein khushu or khuzu ka mafhom or esey peda karne / karney ki ehem tadabeir

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.