سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! فضائل اعمال میں جو ضعیف احادیث ہیں، ان کے متعلق کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں موجود فضائل یا وعیدوں پر یقین کرنا ضروری ہے؟ (اگرچہ یہ فضائل ضعیف احادیث میں وارد ہیں)
جواب: واضح رہے کہ" فضائل اعمال " میں عام طور پر ضعیف روایات کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، جس کو محدّثین عظام نے چند شرائط کے ساتھ قبول کیا ہے، جن میں مذکور فضائل اور وعیدات کو سامنے رکھتے ہوئے روایت پر عمل کرنا اور اسے آگے نقل کرنا بالکل درست ہے، تاہم جن روایات کو محقّقین عظام رحمہم اللہ نے اصولی روایات کے متعارض یا موضوع قرار دیا ہے، ان کے بیان سے بہر صورت اجتناب ضروری ہے۔
حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کا مختصر تعارف:
دراصل کتاب "فضائل اعمال" کے مصنف حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ (المتوفی: 1402ھ) گذشتہ صدی میں احادیث مبارکہ کی بے پناہ خدمات سر انجام دینے والی نمایاں شخصیات میں سے تھے، انہیں حدیث اور اصول حدیث پر کماحقہ مہارت اور بصیرت حاصل تھی، چنانچہ انہوں نے حدیث کی جتنی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں انہوں نے حدیث کے اصولوں ہی کو مد نظر رکھا ہے، حدیث مبارک کی ان تصنیفی اور تدریسی خدمات کو عرب و عجم کے علماء و مشائخ نے نہ صرف سراہا، بلکہ انہیں اکابرینِ وقت نے "شیخ الحدیث" کا لقب بھی عطا کیا، اس لیے برصغیر پاک و ہند میں جب صرف "شیخ الحدیث" کہا جاتا ہے، تو اس لقب سے حضرت والا ہی کی ذات مراد ہوتی ہے۔
ان کی حدیث مبارک پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے ایک مشہور کتاب"فضائل اعمال" کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس کتاب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں دینی و اصلاحی تبدیلی آئی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کی علامات میں سے کہا جاسکتا ہے۔
کتاب "فضائل اعمال " کے حوالہ سے مکر و فریب:
مذکورہ کتاب سے متعلق بعض لوگ نہایت سطحی باتوں کا سہارا لے کر یہ تأثر پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں کہ یہ کتاب ضعیف اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہے، لہذا اس پر اعتماد درست نہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی حدیث کی کتاب میں ضعیف حدیث کا بیان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ، کیونکہ اگر یہ عیب کی بات ہوتی تو "سنن الترمذی"، "سنن أبی داود" اور "سنن ابن ماجہ" وغیرہ میں ذکر نہ کی جاتی ، جبکہ صحاح ستہ کی مذکورہ کتب میں ضعیف احادیث کا ایک بڑی تعداد میں مجموعہ موجود ہے، اس کے باوجود ان کتب سے امّت استفادہ کرتی چلی آرہی ہے اور ان کتب کو بالاتفاق مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔
اسی طرح حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کی کتاب "فضائل اعمال" میں مختلف احادیث کی اقسام موجود ہیں، جن میں سے بعض "صحیح" اور بعض "حسن" درجہ تک پہنچتی ہیں، اس کے علاوہ عبادات وغیرہ کے فضائل و وعیدات بیان کرتے ہوئے بعض جگہوں پر (صحیح احادیث انہیں نہ ملنے کی صورت میں، جیسا کہ ان کے طرز تألیف سے معلوم ہوتا ہے ) ضعیف احادیث کو بھی حضرت نور اللہ مرقدہ نے اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔
ضعیف احادیث کے حوالہ سے چند ضروری ہدایات:
(1)ضعیف حدیث لغت میں کمزور حدیث کو کہتے ہیں، مگر محدثین عظام کے نزدیک "ضعیف حدیث" کا اطلاق ایسی حدیث پر ہوتا ہے جو صحیح و حسن حدیث کی شرائط پر پوری نہ اترتی ہو، یعنی جس روایت کی سند میں اتصال، راوی ثقہ وضابط، روایت شاذ ومعلل وغیرہ میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو وہ روایت" ضعیف" شمار کی جاتی ہے۔ تاہم ضعیف احادیث بھی محدثین کے نزدیک قابلِ اعتبار ہوتی ہیں، اور ان کا مرتبہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کم ضرور ہوتا ہے، مگر فضائل کے باب میں توسع ہونے کی وجہ سے ضعیف احادیث پر عمل کرنا درست ہے، البتہ عقائد واحکام سے متعلق احادیث کے سلسلہ میں خوب تحقیق ضروری ہے۔
(2)بعض ضعیف احادیث جن کا مفہوم قرآن کی آیت سے ثابت ہو یا اسی طرح دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہو ، تو پھر قطعیت اور ثبوت میں وہ اسی آیت یا حدیث کے حکم میں ہوتی ہیں۔
(3) اگر کسی حدیث کو محدّثِ وقت (جس کا علمِ حدیث کے میدان میں درک وخدمات اکابرینِ وقت کے نزدیک قابلِ تحسین رہی ہوں) نے محدّثین عظام رحمہم اللہ کے ذکر کردہ اصولوں پر جانچنے کے بعد روایت کو قبول کرتے ہوئے اپنی کتاب میں ذکر کیا ، مگر اس کے بعد ادوار میں کسی محدث کا اس روایت کی تضعیف سے(خواہ کسی بھی وجہ سے کی گئی ہو) روایت ناقابل استدلال نہیں ہوجاتی ہے۔ الغرض کسی محدث کی جانب سے حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے تو یہ لازمی نہیں کہ وہ ضعیف ہی ہو، بلکہ ممکن ہے کہ دوسرے محدث کے نزدیک وہی روایت کسی دوسری مضبوط سند یا سبب (خارجی) کے ساتھ وہ حدیث صحت کا درجہ حاصل کررہی ہو۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ " فضائل اعمال" میں موجود روایات کا تعلق عام طور پر مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت سے بنتا ہے، سو ایسی روایات جس کے ضعف کو جمہور محدثین وفقہاء کرام تسلیم کرتے ہوں، ان کو فضائل اعمال ، ترغیب وترہیب، قصص ومغازی وغیرہ میں دلیل بنانا اور عمل کرنا درست ہے، بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف ہو، موضوع نہ ہو، اور اس کی اصل شریعت میں موجود ہو، اور اس عمل کی سنّیت کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔
فضائل اعمال میں ذکر کردہ روایت سے متعلق اصولی گفتگو فرماتے ہوئے خود حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے ضعیف احادیث کے ذکر کی وجہ سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
"فضائل کی روایات کے متعلق اصلاً یہ ذہن میں رہے کہ فضائل معمولی ضعف قابل اغتفار ہے ( یعنی قابل ِمعاف ہے)۔ اس لیے جن روایات کو ذکر کیا گیا ہے، ان میں اس اصول کی رعایت کی گئی ہے اور جن روایات پر کسی نے کلام کیا ہے، اس کو ظاہر کر کے ضعیف کی دلیل بھی ظاہر کر دی گئی ہے۔ اس چیز کا تعلق چونکہ عوام سے نہیں تھا، بلکہ اہلِ علم سے تھا، اس لیے اس کو عربی میں لکھا گیا کہ عوام کے عقول سے یہ چیزیں بالاتر تھیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات کے جوابات: ص 39)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
المستدرک علی الصحیحین، لأيي عبدالله الحاکم النیسابوري، کتاب الدعاء والتکبیر والتهليل والتسبیح والذکر، 666/1، رقم الحدیث:1801، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت:
عن عبد الرحمن بن مهدي، يقول: إذا روينا، عن النبي ﷺ في الحلال، والحرام، والأحكام، شددنا في الأسانيد، وانتقدنا الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب، والعقاب، والمباحات، والدعوات تساهلنا في الأسانيد " ۔
الاذکار للنووي، [فصل] : في الأمر بالإِخلاص وحسن النيّات في جميع الأعمال الظاهرات والخفيَّات، ص:8:
"قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف، ما لم يكن موضوعاً"۔
تبیین العجیب ، لابن حجر العسقلاني، ص:23، موسسة قرطبة:
اشتهر أن أهل العلم یسامحون في إیراد الأحادیث في الفضائل، وإن کان فيها ضعف ما لم تکن موضوعة"۔
فتح القدیر لکمال الدین ابن الهمام، باب الإمامة، 349/1، الناشر: دار الفكر:
"فالضعيف غير الموضوع يعمل به في فضائل الأعمال"۔
التعریفات لعلي بن محمد الجرجاني، باب الضاد، 138/1، المحقق: ضبطه وصححه جماعة من العلماء بإشراف الناشر، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت –لبنان:
الضعيف من الحديث: ما كان أدنى مرتبة من الحسن، وضعفه يكون تارة؛ لضعف بعض الرواة، من عدم العدالة، أو سوء الحفظ، أو تهمة في العقيدة، وتارة بعلل أخر، مثل الإرسال والانقطاع والتدليس.
الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف الفاء، الأحکام المتعلقة بالفضائل، 160/32،ط:دار السلاسل:
قال العلماء: يجوز العمل بالحديث الضعيف بشروط، منها:
أ - أن لا يكون شديد الضعف، فإذا كان شديد الضعف ككون الراوي كذابا، أو فاحش الغلط، فلا يجوز العمل به.
ب - أن لا يتعلق بصفات الله تعالى ولا بأمر من أمور العقيدة، ولا بحكم من أحكام الشريعة من الحلال والحرام ونحوها.
ج - أن يندرج تحت أصل عام من أصول الشريعة.
د - أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته، بل يعتقد الاحتياط
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی