عنوان: کتاب "فضائل اعمال" میں ضعیف احادیث کے بارے میں کیا طرزعمل اختیار کیا جائے؟ (9261-No)

سوال: فضائل اعمال میں جو ضعیف احادیث ہیں، ان کے متعلق کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں موجود فضائل یا وعیدوں پر یقین کرنا ضروری ہے؟ (اگرچہ یہ فضائل ضعیف احادیث میں وارد ہیں)

جواب: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ (ولادت: 1318ھ، وفات: 1402ھ) گذشتہ صدی میں حدیث مبارک کی بے پناہ خدمات سر انجام دینے والی نمایاں شخصیات میں سے تھے، انہیں حدیث اور اصول حدیث پر کماحقہ مہارت اور بصیرت حاصل تھی، چنانچہ انہوں نے حدیث کی جتنی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں انہوں نے حدیث کے اصولوں ہی کو مد نظر رکھا ہے، حدیث مبارک کی ان تصنیفی اور تدریسی خدمات کو عرب و عجم کے علماء و مشائخ نے نہ صرف سراہا ہے، بلکہ انہیں ان کے اکابر و اساتذہ نے "شیخ الحدیث" کا لقب بھی عطا کیا، اس لیے برصغیر پاک و ہند میں جب صرف "شیخ الحدیث" کہا جاتا ہے، تو اس لقب سے حضرت والا ہی کی ذات مراد ہوتی ہے۔
ان کی حدیث مبارک پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے "فضائل اعمال" کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس کتاب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں دینی اور اصلاحی تبدیلی آئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کی علامات میں سے ہے۔
دوسری جانب اس کتاب کے بارے میں بعض لوگ نہایت سطحی باتوں کا سہارا لے کر یہ تأثر پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں کہ یہ کتاب ضعیف اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہے، لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی حدیث کی کتاب میں ضعیف حدیث کا بیان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، اگر عیب کی بات ہوتی، تو "سنن الترمذی"، "سنن أبی داود" اور "سنن ابن ماجہ" میں نہ آتیں، جبکہ صحاح ستہ کی ان کتابوں میں بعض جگہوں پر ضعیف احادیث بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کتابوں سے امت استفادہ کرتی چلی آرہی ہے۔
اسی طرح "فضائل اعمال" کتاب میں بھی بہت سی صحیح احادیث اور حسن احادیث موجود ہیں، اور بعض اعمال کے فضائل اور وعیدوں سے متعلق بعض جگہوں پر ضعیف احادیث بھی ذکر کی گئی ہیں۔
"ضعیف" کا معنی ہے کمزور، عام طور پر جب یہ کہا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، تو لوگوں کو اس لفظ سے دھوکہ ہو جاتا ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث کمزور ہے، نا قابل اعتبار ہے، حالانکہ ضعیف احادیث بھی محدثین کے نزدیک معتبر ہوتی ہیں، تاہم ان کا مرتبہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کم تر ہوتا ہے۔
لہذا "حدیثِ ضعیف" کی تعریف سمجھنے سے پہلے "حدیث حسن" کی تعریف سمجھنا ضروری ہے۔
"حدیث حسن" وہ حدیث ہے، جس کی سند میں درمیان سے کوئی راوی نہ چھوٹا ہو، بلکہ وہ حدیث واسطہ در واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو، اور اس کے تمام راوی ثقہ، معتبر، معتمد اور عادل ہوں، مگر اُن میں سے ایک یا متعدد راویوں کی حفظ و یادداشت میں کچھ کمی ہو، اور اس حدیث کا کوئی راوی حدیث بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ قوی و معتمد راوی کی مخالفت بھی نہ کرتا ہو، اور نہ ہی اس حدیث میں کوئی ایسا مخفی عیب ہو، جس سے اس حدیث کی صحت پر اثر پڑ رہا ہو۔
حدیث ضعیف کی تعریف:
لغوی اعتبار سے "ضعیف" بمعنی کمزور ہے۔
اصطلاحی مفہوم میں"ضعیف" وہ حدیث ہے، جس میں حدیثِ حسن کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں۔
جمہور علماء کے نزدیک ضعیف حدیث پر تین شرائط کے بعد عمل ہوسکتا ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف اس درجہ کا نہ ہو کہ موضوع (من گھڑت) کی حد تک پہنچ جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی دوسری صحیح حدیث یا اصول دین سے متصادم نہ ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جو عمل اس حدیث سے ہم مستنبط کر رہے ہیں، یعنی کہ جس پر وہ ضعیف حدیث دلالت کر رہی ہے، اس عمل کو سنت نہ کہا جائے۔
آخر میں فضائل اعمال کے حوالے سے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللّٰہ کی اپنی وضاحت خود آپ کے رسالہ "کتب فضائل اور ان کے جوابات" سے ملاحظہ فرمائیں:
"فضائل کی روایات کے متعلق اصلاً یہ ذہن میں رہے کہ فضائل معمولی ضعف قابل اغتفار ہے، ( یعنی قابل معاف ہے۔ از ناقل ) اس لیے جن روایات کو ذکر کیا گیا ہے، ان میں اس اصول کی رعایت کی گئی ہے اور جن روایات پر کسی نے کلام کیا ہے، اس کو ظاہر کر کے ضعیف کی دلیل بھی ظاہر کر دی گئی ہے۔
اس چیز کا تعلق چونکہ عوام سے نہیں تھا، بلکہ اہل علم سے تھا، اس لیے اس کو عربی میں لکھا گیا کہ عوام کے عقول (عقل کی جمع۔ از ناقل) سے یہ چیزیں بالاتر تھیں۔
(کتب فضائل پر اشکالات کے جوابات: ص 39)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التعریفات: (87/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
الحسن من الحديث: أن يكون راويه مشهورا بالصدق والأمانة، غير أنه لم يبلغ درجة الحديث الصحيح؛ لكونه قاصرا في الحفظ والوثوق، وهو مع ذلك يرتفع عن حال من دونه.

و فیه ایضاً: (138/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
الضعيف من الحديث: ما كان أدنى مرتبة من الحسن، وضعفه يكون تارة؛ لضعف بعض الرواة، من عدم العدالة، أو سوء الحفظ، أو تهمة في العقيدة، وتارة بعلل أخر، مثل الإرسال والانقطاع والتدليس.

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (161/32، ط: دار السلاسل)
قال العلماء: يجوز العمل بالحديث الضعيف بشروط، منها:
أ - أن لا يكون شديد الضعف، فإذا كان شديد الضعف ككون الراوي كذابا، أو فاحش الغلط، فلا يجوز العمل به.
ب - أن لا يتعلق بصفات الله تعالى ولا بأمر من أمور العقيدة، ولا بحكم من أحكام الشريعة من الحلال والحرام ونحوها.
ج - أن يندرج تحت أصل عام من أصول الشريعة.
د - أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته، بل يعتقد الاحتياط

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1077 Feb 03, 2022
kitab " fazael e amal" me / mein zaeef ahadees k / kay bare / baray me / mein kia tarz e amal ekhtiyar kia jaye?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.