سوال:
مفتی صاحب! بچہ کے کان میں اذان دینے کا کیا حکم ہے؟ فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے؟
جواب: بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو، تو نہلانے کے بعد بچہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں اور قبلہ رُخ ہوکر پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور پھر بائیں کان میں اقامت کہیں، نیز "حي علی الصلاة" اور "حي علی الفلاح" کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ بھی پھیریں، البتہ دورانِ اذان کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (385/1، ط: سعید)
"(لا) يسن (لغيرها) كعيد
(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم...."الخ
و فیه ایضاً: (387/1، ط: سعید)
"(ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقاً، وقيل: إن المحل متسعاً (يميناً ويساراً) فقط؛ لئلايستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقاً.
(قوله: ولو وحده إلخ) أشار به إلى رد قول الحلواني: إنه لايلتفت لعدم الحاجة إليه ح. وفي البحر عن السراج: أنه من سنن الأذان، فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. (قوله: مطلقاً) للمنفرد وغيره والمولود وغيره ط".
مرقاۃ المفاتیح: (باب الأذان، 414/1)
قال الملا علی القاری:وقال ابن حجر ....الاذان الذی یسن لغیر الصلاۃ کالاذان فی اذن المولود الیمنی والاقامہ فی الیسری۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی