عنوان: اپنی بیوی اور اپنے باپ کو طلاق کا اختیار دینے اور اس اختیار کو واپس لینے کا حکم(9273-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق کا حق دیدیا، اور ایک طلاق کا حق اپنے والد کو دیدیا، کچھ سالوں بعد اس شخص کی بیوی کا اپنے سسر سے جھگڑا ہوگیا، اور انہوں نے اپنی بہو کو ایک طلاق دیدی، اس مسئلہ میں کچھ سوالات ہیں، جن کی وضاحت مطلوب ہے:
1: کیا شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق کا حق دے سکتا ہے؟
2: اگر جواب ہاں میں ہے، تو کیا یہ حق تا حیات رہے گا؟
3: کیا شوہر کا بیوی کو طلاق کا حق دے دینے سے شوہر کا تین طلاق کا حق کم ہوجائے گا یا پھر تین ہی کا حق رہے گا؟
4: کیا شوہر بیوی سے یہ حق واپس لے سکتا ہے؟ 5: کیا شوہر اپنے والد کو یہ حق دے سکتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو ایک طلاق دے سکے؟
6: اگر جواب ہاں میں ہے، تو کیا یہ حق تا حیات ہے؟
7: کیا شوہر کا اپنے والد کو طلاق کا حق دے دینے سے شوہر کا تین طلاق کا حق کم ہوجائے گا یا پھر تین ہی رہے گا؟
8: کیا شوہر اپنے والد سے یہ حق واپس لے سکتا ہے؟
9: کیا سسر کے طلاق دینے سے بیوی کو ایک طلاق واقع ہوگئی؟
براہ کرم تمام سوالات کے جوابات بالترتیب عنایت فرمادیں۔ جزاک اللہ خیراً

جواب: (1,3,5,7,9)واضح رہے کہ شوہر اپنی رضامندی سے اپنی بیوی کو یا بیوی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اپنی بیوی کے طلاق کا اختیار دے سکتا ہے۔
اختیار دینے کی صورت میں اگر اس شخص کی بیوی خود اپنے آپ کو طلاق دے دے، یا کوئی صاحبِ اختیار شخص اس کی بیوی کو طلاق دے دے، تو ان دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی، اور ایک طلاق ہونے کی صورت میں شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
(2,4,6,8) طلاق کا اختیار تاحیات ہونے اور واپس لینے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ان الفاظ "تجھے طلاق کا اختیار ہے، جب تو چاہے، تو خود کو طلاق دے سکتی ہے" سے طلاق کا اختیار دیا ہو، تو بیوی کو یہ اختیار تاحیات حاصل رہے گا، لہذا بیوی کسی بھی وقت خود کو طلاق دے سکتی ہے، اور ایسی صورت میں شوہر کو یہ اختیار واپس لینے کا حق نہیں رہے گا۔
البتہ اپنے باپ کو طلاق کا اختیار دینے کی صورت میں شوہر اپنے باپ سے طلاق کا اختیار واپس لے سکتا ہے، کیونکہ باپ کو طلاق کا اختیار دینے کی صورت میں باپ اس کی جانب سے طلاق کا وکیل بن جاتا ہے، اور مؤکل کو اپنے وکیل کی معزولی (اختیار ختم کرنے) کا حق حاصل رہتا ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے اپنے باپ کو اپنی بیوی کے طلاق کا اختیار دیا تھا، لہذا اگر اس دوران شوہر نے اس اختیار سے رجوع نہ کیا ہو، تو باپ کے طلاق دینے کی وجہ سے اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی ہے، اب آئندہ اس شخص کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (كتاب الطلاق، 192/3، ط: مكتبة رشيدية)
ولو قال: لها أنت طالق إذا شئت أو إذا ما شئت أو متى شئت أو متى ما شئت فلها ان تطلق نفسها في أي وقت شاءت في المجلس أوبعده وبعد القيام عنه لما مر.

و فيه ايضا: (كتاب الطلاق، 194/3، ط: مكتبة رشيدية)
(فصل) وأما قوله طلقي نفسك فهو تمليك عندنا سواء قيده بالمشيئة أو لا.... وأجمعوا على أن قوله لاجنبي طلق امرأتي توكيل ولا يتقيد بالمجلس وهو فصل التوكيل.
....الثالث أن قوله لامرأته: طلقي نفسك لا يمكن ان يجعل توكيلا لان الانسان لا يصلح أن يكون وكيلا في حق نفسه فلم يمكن ان تجعل وكيلة في حق تطليق نفسها ويمكن ان تجعل مالكة للطلاق بتمليك الزوج فتعين حمله على التمليك بخلاف الأجنبي لانه بالتطليق يتصرف في حق الغير والانسان يصلح وكيلا في حق غيره والله الموفق.

فتاوی محمودیہ: (باب التفویض، 153/13، ط: ادارة الفاروق)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1033 Feb 08, 2022
apni biwi or apne / apney bap / walid ko talaq ka ikhtiyar dene / deney or us ikhtiyar ko wapis lene / leney ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.