سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! پوچھنا یہ تھا کہ میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جن میں سے بیٹے کا انتقال ہو چکا ہے، اور ان پانچ بیٹیوں میں سے ایک بیٹی میرے ساتھ رہتی ہے، باقی سب اپنے اپنے گھروں میں رہتی ہیں۔ میرے شوہر نے مرنے سے پہلے 24 لاکھ کا مکان میرے نام کردیا تھا، اب میں یہ چاہتی ہوں کہ میں آدھی جائیداد بطورِ تحفۃ اپنی اس بیٹی کے نام کردوں جو میرے ساتھ رہتی ہے، سب بیٹیاں بھی راضی ہیں، سوائے میرے مرحوم بیٹے کی بیوی کہ اسے اعتراض ہے، مہربانی فرما کر اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں ایسا کرسکتی ہوں یا نہیں؟
نوٹ: بیٹے کا انتقال شوہر کے بعد ہوا ہے۔
جواب: (1) اگر آپ کے شوہر نے مکان صرف آپ کے نام کیا تھا، اور مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا تھا، تو یہ مکان آپ کے شوہر کی ہی ملکیت شمار ہوگا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، اس صورت میں مرحوم بیٹے کے والد صاحب کی جائیداد سے ملنے والے حصہ کو، اس کے شرعی ورثاء (بیوہ، بچے، والدہ) میں تقسیم کیا جائے گا۔
اور اگر آپ کے شوہر نے آپ کو اپنی زندگی میں مالکانہ تصرف اور قبضہ بھی دیدیا تھا، تو پھر یہ مکان صرف آپ کی ملکیت شمار ہوگا، اور آپ اس مکان کی تنہا مالکہ ہوں گی، اس صورت میں بہو کو اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
(2) اپنی زندگی میں اپنا مملوکہ گھر تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے لیے اپنے گھر کی قیمت میں سے جو رکھنا چاہیں رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز آپ پر کسی کا قرض ہو، تو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردیں، یعنی تمام بیٹیوں کو برابر سرابر دیں۔
اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے دینا چاہیں، تو یہ بھی جائز ہے۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگر ان میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو، یا دین دار ہو، یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو، تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ(گفٹ) ہے، اس لیے اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں، تو اس کو مالک و قابض بنا کر دینا لازم ہے، اس صورت میں آپ کے انتقال کے بعد یہ گھر آپ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا، وہی اس کا مالک ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
شرح المجلۃ: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
الھندیۃ: (378/4، ط: رشیدیہ)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
البحر الرائق: (288/7، تحت بحث ہبۃ الطفل، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی