سوال:
اگر کوئی شخص عارضی طور پر کہیں نماز پڑھائے ،یا کسی کے گھر چالیس دن تک سورہ بقرہ پڑھے، تو اس کی اجرت لینا کیسا ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص عارضی طور پر نماز پڑھانے کے لیے مقررکیا جائے اور وہ نماز پڑھانے کا پابند ہو، تو وہ اس وقت کی تنخواہ لے سکتا ہے۔
اگر سورۃ البقرۃ پڑھنے میں تلاوت اور اس کا ثواب مقصود ہو، جیسے میت کو ثواب پہنچانے کے لئے تلاوت کی جاتی ہے، ایسی صورت میں تلاوت کی اجرت لینا، اسی طرح ختم قرآن کی اجرت لینا ناجائز اور حرام ہے۔
البتہ اگر سورۃ البقرۃ بطورِ علاج کسی کو دم کرنے کے لیے پڑھی جائے، تو ایسی صورت میں قرآن کریم پڑھنا دم، رقیہ اور علاج کے قبیل سے ہے، تو اس کے عوض اجرت لینا دینا جائز ہے، جیسا کہ کئی احادیث مبارکہ سے اس کا ثبوت ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ایک سفر میں جا رہے تھے، وہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمانی طلب کی، لیکن انہوں نے مہمان نوازی نہ کی، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا، کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ کیونکہ قبیلہ کے سردار کو (کسی جانور نے) ڈس لیا ہے یا کوئی تکلیف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا: جی ہاں! پس وہ اس کے پاس آئے، اور اسے سورہ فاتحہ کے ساتھ دم کیا، تو وہ آدمی تندرست ہوگیا، انہیں بکریوں کا ریوڑ دیا گیا، لیکن اس صحابی نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اس کا ذکر میں نبی ﷺ سے نہ کرلوں نہیں لوں گا، وہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میں نے سورہ فاتحہ ہی کے ذریعے دم کیا ہے، آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ پھر فرمایا: ان سے(ریوڑ) لے لو اور ان میں سے اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔
مذکورہ بالا روایت بخاری، مسلم، أبوداؤد، سنن ترمذی اور احادیث مبارکہ کی دیگر کتب میں ذکر کی گئی ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اجرت لینے والے صحابی سے فرمایا:
جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے، ان میں سب سے مستحق کتاب اللہ ہے۔
(حدیث نمبر:5737)
اس روایت سے بھی دم اورتعویذ پر اجرت لینے کا ثبوت ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2201، ط: دار إحیاء التراث العربی)
عن أبي سعيد الخدري، أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا في سفر، فمروا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم فلم يضيفوهم، فقالوا لهم: هل فيكم راق؟ فإن سيد الحي لديغ أو مصاب، فقال رجل منهم: نعم، فأتاه فرقاه بفاتحة الكتاب، فبرأ الرجل، فأعطي قطيعا من غنم، فأبى أن يقبلها، وقال: حتى أذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: يا رسول الله والله ما رقيت إلا بفاتحة الكتاب فتبسم وقال: «وما أدراك أنها رقية؟» ثم قال: «خذوا منهم، واضربوا لي بسهم معكم».
بذل المجہود: (628/22، ط: دار البشائر)
و فی الحدیث أعظم دلیل علی أن یجوز الأجرۃ علی الرقی و الطب کما قالہ الشافعی،و مالک ،و أبوحنیفۃ، وأحمد.
رد المحتار: (57/6، ط: دار الفکر)
لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي.
فتاوی قاسمیہ: (156/4)
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144012201346
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی