resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "بائیں طرف والا فرشتہ چھ گھڑیوں تک گناہ کرنے والے مسلمان بندے کا گناہ لکھنے سے اپنا قلم روکے رکھتا ہے" حدیث کی تحقیق(9297-No)

سوال: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بائیں طرف والا (یعنی گناہ لکھنے پر مامور فرشتہ) گناہ کرنے والے مسلمان (کا گناہ لکھنے) سے چھ گھنٹے تک قلم اٹھائے رکھتا ہے، اگر وہ (گناہ گار شخص اس دوران) اپنے کئے پر نادم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے تو وہ فرشتہ گناہ نہیں لکھتا، اگر توبہ نہ کرے تو (ایک گناہ کے بدلے) ایک گناہ لکھ دیتا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ تصدیق فرمادیں۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کے رجال ثقہ ہیں ،لہذا اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے، اس روایت کا ترجمہ ،تخریج ،اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ :
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بائیں طرف والا فرشتہ (‏‏‏‏جو برائیاں لکھتا ہے) چھ گھڑیوں تک گناہ کرنے والے مسلمان بندے کا گناہ لکھنے سے اپنا قلم روکے رکھتا ہے، اگر (‏‏‏‏اس وقت کے اندر اندر ایسا مسلمان) پچھتا کر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا شروع کر دے، تو وہ قلم رکھ دیتا ہے، ‏‏‏‏(یعنی وہ گناہ سرے سے نہیں لکھا جاتا) اور اگر اتنے وقت میں بھی اسے ندامت کا موقع نہ ملے، تو وہ ایک برائی لکھ لیتا ہے۔"( المعجم الکبیر للطبرانی ،حدیث نمبر: 7765)
تخریج الحدیث :
۱۔سوال میں ذکرکردہ روایت کوامام طبرانی (م 360ھ) ’’ المعجم الکبیر ‘‘(8/185)،رقم الحديث: 7765، ط:مكتبة ابن تيمية)ميں ذکر کیا ہے۔
۲۔حافظ ابونعیم اصفہانی(م 430ھ)نے ’’حلية الأولياء‘‘(6/124، ط: السعادة)میں ذکر کیا ہے۔
۳۔ امام بیہقی(م 458ھ) نے ’’شعب الایمان‘‘(5/391)رقم الحدیث: 7051،ط: دارالکتب العلمیۃ)میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
حافظ ابونعیم اصفہانی(م 430ھ)نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ’’عاصم بن رجاء بن حيوة‘‘’’ اور "عروة بن رويم‘‘ کی حدیث غریب ہے، یعنی اس کے روایت کرنے میں یہ اکیلے ہیں، اور اس کو ہم نے "اسماعیل بن عیاش" سے لکھا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کی روایت اہلِ شام سے قابلِ قبول ہے اور یہ روایت بھی ان ہی میں سے ہے، جیسا کہ امام بخاری اور دیگر محدثین کرام نے فرمایا۔
علامہ ہیثمی (م807ھ)نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: علامہ طبرانی نے اس روایت کو مختلف اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی (م1420ھ)نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعجم الکبیر :(8 /185)،رقم الحديث: 7765، ط:مكتبة ابن تيمية)
حدثنا أحمد بن عبد الوهاب بن نجدة الحوطي، ثنا أبي ح، وحدثنا أحمد بن زياد بن زكريا الأيادي، ثنا عبد الوهاب بن نجدة الحوطي، ح وحدثنا عمرو بن إسحاق بن إبراهيم بن زبريق الحمصي، ثنا عمي محمد بن إبراهيم ح، وحدثنا جعفر بن محمد الفريابي، ثنا إبراهيم بن عبد الله بن العلاء الحمصي، قالوا: ثنا إسماعيل بن عياش، عن عاصم بن رجاء بن حيوة، عن عروة بن رويم، عن القاسم، عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن صاحب الشمال ليرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطئ أو المسيء، فإن ندم واستغفر الله منها ألقاها، وإلا كتبت واحدة۔
و الحدیث أخرجه الطبراني في ’’الكبير‘‘ (8 / 191) ،(7787) ، (8 / 247) (7971)، و أبن شاهين في ’’الترغىب‘‘(64)،(182)،وأبونعیم الأصبہاني في ’’الحلية‘‘(6/124)،و البيهقي في ’’ الشعب‘‘(5/391)( 7051)

حلية الأولياء : (6/124، ط: السعادة)
والحديث أخرجه أبونعیم الأصبہاني وقال:غريب من حديث عاصم، وعروة لم نكتبه إلا من حديث إسماعيل بن عياش.

میزان الاعتدال للامام الذھبیؒ:(1/240، ط: دار المعرفة)
إسماعيل بن عياش [عو] ، أبو عتبة العنسي الحمصي.
عالم أهل الشام.۔۔قال الفسوي: تكلم قوم في إسماعيل، وهو ثقة عدل، أعلم الناس بحديث الشام، أكثر ما تكلموا فيه قالوا: يغرب عن ثقات الحجازيين.۔۔۔وقال عباس عن يحيى: ثقة.
وروى ابن أبي خيثمة، عن ابن معين: ليس به بأس في أهل الشام.
وقال البخاري: إذا حدث عن أهل بلده فصحيح، وإذا حدث عن غيرهم ففيه نظر.
كذا في الثقات لإبن حبان:( 1534،ط: دارالکتب العلمیۃ) وقال إبن حجر العسقلاني في ’’التقريب‘‘(285 ،ط: دار الرشيد)عاصم بن رجاء بن حيوة الكندي الفلسطيني صدوق يهم من الثامنة وقال أ یضاً:( 389)عروة بن رويم بالراء مصغرا اللخمي أبو القاسم صدوق يرسل كثيرا من الخامسة مات سنة خمس وثلاثين على الصحيح د س ق.

مجمع الزوائدللهيثمی: (10/207)،رقم الحديث: 17572 ، ط: مكتبة القدسي)
والحديث أورده الهيثمي وقال:رواه الطبراني بأسانيد، ورجال أحدها وثقوا.

سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني: (3/210)( 1209)،ط:مكتبة المعارف)
وهذا الحديث ذكرالعلامة الألباني وقال:وهو ثقة في روايته عن الشاميين وهذه منها، فإن عاصما فلسطيني، ومن
فوقه ثقات، وفي عاصم والقاسم - وهو ابن عبد الرحمن صاحب أبي أمامة - كلام
لا ينزل به حديثهما عن مرتبة الحسن. والحديث ذكره الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘(10/208) وقال:رواه الطبراني بأسانيد، ورجال أحدها وثقوا .

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

bain / baen taraf wala farishta chey / six ghario / gharion tak gunah karne / karney wale musalman bandey ka gunah likhney se / say apna qalam rokey rakhta he / hay.hadees ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees