عنوان: نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت اور صف بنانے سے متعلق مسائل (9300-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! نماز باجماعت میں صفوں کو پُر کرنے کا حکم تفصیل سے عرض فرمادیں۔
دراصل اس میں کچھ سوالات ہیں، مثلا: اگر نمازی سنتیں پڑھ رہے ہوں اور جماعت کھڑی ہوجائے، تو کیا صفوں کو پُر کرنے کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے کی اجازت ہے؟
سنا ہے کہ صف کی سیدھی طرف کھڑے ہونے کا زیادہ اجر ہے، نیز دوسری طرف صف کے درمیان سے شروع کرنا اور دونوں طرفوں کو برابر رکھتے ہوئے جماعت میں شامل ہونے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ کچھ لوگ جلدی کی وجہ سے صف میں ایک ہی طرف کھڑے ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے صف برابر نہیں رہتی، تو کیا زیادہ اجر حاصل کرنے کی نیت سے دائیں طرف کھڑے ہونا بہتر ہے یا صف کو برابر رکھنے کے لیے بائیں طرف کھڑے ہونے میں زیادہ ثواب ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب: جناب رسول اللہ ﷺنے نمازِ باجماعت میں صف بندی کی اہمیت وفضیلت کوبڑی تاکید سے بیان فرمایا ہے، صفوں کو سیدھا رکھنے پر خصوصی توجہ دلائی ہے، صفوں کی درستگی کو”نمازکا حسن و خوبصورتی“ اور ”تکمیل نماز“ قرار دیا ہے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست رکھا کرو، کیونکہ صفوں کا درست رکھنا میں تکمیلِ نماز سے ہے۔
(صحیح البخاری:حدیث نمبر: 723)
ایک روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: نماز میں صفیں برابر رکھو، کیونکہ نماز کا حسن صفوں کے برابر رکھنے میں ہے۔
(صحیح البخاری:حدیث نمبر: 722)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) جناب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے، جس طرح فرشتے اللہ کے حضور میں (بندگی کے لئے کھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ! فرشتے اپنے پروردگار کے حضور میں کس طرف صف باندھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر: 430)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:امام کو درمیان میں رکھو (یعنی صف بندی اس طرح کرو کہ امام کی دائیں اور بائیں جانب کے آدمی برابر ہوں) اور (صف کے) خلا کو بند کرو۔
اس ساری تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ترتیب وار ذکر کیے جاتے ہیں:
۱۔ہر نئی صف ہمیشہ درمیان سے بنانا چاہیے، اس لئے آنے والے کو چاہیے کہ وہ (اگلی صف کے مکمل ہوجانے کی صورت میں) امام کے پیچھے کھڑے ہو، اس کے بعد آنے والا دائیں طرف کھڑا ہو، پھر آنے والا بائیں طرف کھڑا ہو، پھر دائیں، پھر بائیں، اسی طرح دونوں طرف میں برابری کا خیال رکھتے ہوئے کنارے تک صف کو مکمل کیا جائے۔
۲۔صف میں دائیں جانب کھڑا ہونا افضل ہے،جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " صفوں کے دائیں طرف والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔
۳۔ اگر دائیں جانب مقتدی زیادہ ہو تو بائیں جانب کھڑا ہونا دوہرے اجر کا باعث ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: جو مسجد کی بائیں جانب آباد کرے گا ،اس کے لئے دوہرا اجر لکھا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضلیت اس صورت میں ہے، جب بائیں جانب مقتدیوں کی تعداد دائیں جانب کے برابر ہو، یعنی دونوں جانب مقتدی برابر ہوں، اور اگر بائیں جانب مقتدی کم ہوں، تو بائیں جانب کھڑا ہونا دائیں جانب کھڑے ہونے سے افضل ہوگا، اور اس پر دوہرا اجر ملے گا۔
۴۔ فجر کی سنتوں کے علاوہ سنتیں پڑھنے والے کو چاہیے کہ سنتیں شروع کرنے سے پہلے جماعت کے وقت کو دیکھ لے، اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پہلے سنتیں پوری کرلے، لیکن اگر وقت کم ہو تو جماعت کے انتظار میں بیٹھا رہے، جماعت ختم ہونے کے بعد سنتوں کو پورا کرے، بہرحال اگر کوئی صف میں سنت پڑھ رہا ہے، تو اگلی صف میں اس کے سامنے جگہ خالی نہیں چھوڑی جائے گی، بلکہ اسے پر کیا جائے گا، پہلی کوشش کی جائے کہ اس کے سامنے سے گزرے بغیر اس جگہ کو پر کرلیا جائے، لیکن اگر اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے نمازی کے سامنے سے گزر کر صف میں کھڑا ہونا پڑے، تو یہ بھی جائز ہے، اس کے آگے سے گزرنے کا گناہ سنتیں پڑھنے والے کو ہوگا، جبکہ گزرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 723، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة.

و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 722)
وأقيموا الصف في الصلاة، فإن إقامة الصف من حسن الصلاة.

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 430، ط: در احیاء التراث العرب)
عن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة» قال: ثم خرج علينا فرآنا حلقا فقال: «مالي أراكم عزين» قال: ثم خرج علينا فقال: «ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها؟» فقلنا يا رسول الله، وكيف تصف الملائكة عند ربها؟ قال: يتمون الصفوف الأول ويتراصون في الصف.

سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 681، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا جعفر بن مسافر، حدثنا ابن أبي فديك، عن يحيى بن بشير ابن خلاد، عن أمه، أنها دخلت على محمد بن كعب القرظى فسمعته يقول:حدثني أبو هريرة قال: قال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: "وسطوا الإمام، وسدوا الخلل.

حاشية السندي على سنن ابن ماجه: (316/1، ط: دار الجيل)
قوله (من عمر ميسرة إلخ) وفيه أن اليمين وإن كان هو الأصل لكن اليسار إذا خلا فتعميره أولى من اليمين وعلى هذا فلا بد من النظر إلى الطرفين فإن كان زيادة فلتكن في اليمين.

رد المحتار: (567/1، ط: دار الفكر)
وكيفيته أن يقف أحدهما بحذائه والآخر بيمينه إذا كان الزائد اثنين، ولو جاء ثالث وقف عن يسار الأول، والرابع عن يمين الثاني والخامس عن يسار الثالث، وهكذا. اه. وفيه إشارة إلى أن الزائد لو جاء بعد الشروع يقوم خلف الإمام ويتأخر المقتدي الأول ويأتي تمامه قريب۔۔۔ قال - عليه الصلاة والسلام - «توسطوا الإمام وسدوا الخلل» ومتى استوى جانباه يقوم عن يمين الإمام إن أمكنه وإن وجد في الصف فرجة سدها.

و فیه ایضاً: (635/1)
وقد أفاد بعض الفقهاء أن هنا صورا أربعا: الأولى: أن يكون للمار مندوحة عن المرور بين يدي المصلي ولم يتعرض المصلي لذلك، فيختص المار بالإثم إن مر. الثانية مقابلتها: وهي أن يكون المصلي تعرض للمرور والمار ليس له مندوحة عن المرور فيختص المصلي بالإثم دون المار. الثالثة: أن يتعرض المصلي للمرور ويكون للمار مندوحة فيأثمان، أما المصلي فلتعرضه، وأما المار فلمروره مع إمكان أن لا يفعل. الرابعة: أن لا يتعرض المصلي ولا يكون للمار مندوحة فلا يأثم واحد منهما كذا نقله الشيخ تقي الدين بن دقيق العيد - رحمه الله تعالى -. اه.
قلت: وظاهر كلام الحلية أن قواعد مذهبنا لا تنافيه حيث ذكره وأقره، وعزا ذلك بعضهم إلى البدائع ولم أره فيها، ولو كان فيها لم ينقله في الحلية عن الشافعية فافهم. والظاهر أن من الصورة الثانية ما لو صلى عند باب المسجد وقت إقامة الجماعة لأن للمار أن يمر على رقبته كما يأتي، وأنه لو صلى في أرضه مستقبلا لطريق العامة فهو من الصورة الثالثة لأن المار مأمور بالوقوف وإن لم يجد طريقا آخر كما يظهر من إطلاق الأحاديث ما لم يكن مضطرا إلى المرور، هذا إن كان المراد بالمندوحة إمكان الوقوف وإن لم يجد طريقا آخر، أما إن أريد بها تيسر طريق آخر أو إمكان مروره من خلف المصلي أو بعيدا منه وبعدمها عدم ذلك فحينئذ يقال إن كان للمار مندوحة على هذا التفسير يكون ذلك من الصورة الثالثة أيضا وإلا فمن الصورة الثانية ويؤيد التفسير الأول قوله وأما المار فلمروره مع إمكان أن لا يفعل، وكذا تعليلهم كراهة الصلاة في طريق العامة بأن فيه منع الناس عن المرور، فإن مفاده أنه لا يجوز لهم المرور وإلا فلا منع، إلا أن يراد به المنع الحسي لا الشرعي، وهو الأظهر. وعليه فلو صلى في نفس طريق العامة لم تكن صلاته محترمة كمن صلى خلف فرجة الصف فلا يمنعون من المرور لتعديه فليتأمل.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2619 Feb 11, 2022
namaz bajamat me / mein / may saf bandi ki ehmiyat or saf banane / bananey se / say mutaliq masail

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.