resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: چار تولہ سونا اور ضرورت سے زائد سامان ہے، اور سال میں ایک دو دفعہ پیسے ہاتھ آتے ہیں، زکوٰۃ اور قربانی کا کیا حکم ہے؟(9301-No)

سوال: السلام علیکم،ایک عورت کے پاس چار تولہ سونا ہے، پیسے سال بھر میں بمشکل ایک دو دفعہ ہاتھ آ جاتے ہیں، البتہ ضرورت سے زیادہ برتن اور کپڑے اس کے پاس ہیں، آیا ان زائد کپڑوں اور برتن کی قیمت لگا کر سونے کی قیمت کے ساتھ جمع کیا جائے گا اور پھر اس پر زکاۃ و قربانی لازم ہوگی یا اس حالت میں سونے کا الگ نصاب شمار کرے گی اور زائد سامان کا الگ یا کیا کیا جائے گا؟

جواب: چونکہ قربانی کے نصاب اور زکوٰۃ کے نصاب میں کچھ فرق ہے، لہذا دونوں کا حکم الگ الگ بیان کیا جاتا ہے:

1.یاد رہے کہ سونے چاندی کے علاوہ گھر کا وہ سامان، جو تجارت کے لیے نہ ہو، اور ضرورت سے زائد ہو، مثلاً: برتن، کمبل، کپڑے وغیرہ، تو ایسے سامان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے، اس لئے پوچھی گئی صورت میں چار تولے سونا اور بنیادی ضرورت سے زائد رقم کی کل مالیت ملا کر، اگر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر پہنچ جائے، اور اس پر ایک سال بھی گزر جائے، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
2) جبکہ قربانی کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان ( جو سارا سال استعمال نہیں ہوتا) کو بھی شامل کیا جائے گا، اور اس پر سال گزرنے کی شرط نہیں ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر عید الاضحی کے دنوں میں مذکورہ خاتون کی ملکیت میں موجود چار تولہ سونا، ضرورت سے زائد سامان اور نقد رقم (اگر موجود ہو) کی کل قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر پہنچ جائے، تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (262/2، ط: سعید)
ولیس فی دورالسکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنازل ۔۔۔ زکوٰۃ لإنہا مشغولۃ بحاجتہ الأصلیۃ۔

الدر المختار: (باب زکاۃ المال، 295/2، ط: سعید)
نصاب الذہب عشرون مثقالاً فما دون ذٰلک لا زکاۃ فیہ، ولو کان نقصاناً یسیرا۔

بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الفکر)
فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا .... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة؛ و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر۔

تبیین الحقائق: (280/1، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)
ونقصان النصاب فی الحول لا یضر إن کمل في طرفیہ، أي: إذا کان النصاب کاملاً فی ابتداء الحول وانتھائہ فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاة،…… إلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الذي انعقد علیہ الحول لیضم المستفاد إلیہ؛ لأن ھلاک الکل یبطل انعقاد الحول؛ إذ لا یمکن اعتبارہ بدون المال۔

المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره.
وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية....
وفي «الأجناس» : وإن كان عنده حنطة قيمتها مائتا درهم يتجر بها، أو ملح قيمتها مائتا درهم، أو قصار عنده صابون أو أشنان قيمتها مائتا درهم فعليه الأضحية.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

char / 4 tola sona / gold or zarorat se / say zayed saman he / hay,or saal / year me / mein / may aik do / two/ 2 dafa pese / raqam hath aatey hain / hay, zakat or qurbani ka kia hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat