سوال:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا جلال جو تم ذکر کرتے ہو، وہ تسبیح (سبحان اللہ)، تہلیل (لا اله الا الله) اور تحمید (الحمد للہ) ہے، یہ کلمے عرش کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، ان میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے، اپنے کہنے والے (اللہ کے سامنے) کا ذکر کرتے ہیں، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لیے ایک ایسا شخص ہو، جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا برابر ذکر کرتا رہے۔ (سنن ابن ماجہ:3809) کیا یہ تسبیحات کہیں سے ثابت ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کی سند’’صحیح‘‘ ہے، لہذا اس کو بیان کیا جاسکتا ہے، اس روایت کا ترجمہ ،تخریج ،اسنادی حیثیت اور مختصر تشریح مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا جلال جو تم ذکر کرتے ہو، وہ تسبیح (سبحان الله) تہلیل (لا إله إلا الله) اور تحمید (الحمد لله) ہے، یہ کلمے عرش کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، ان میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے، اپنے کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں (اللہ کے سامنے) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لیے ایک ایسا شخص ہو، جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا برابر ذکر کرتا رہے“۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3809)
تخریج الحدیث:
1۔اس روایت کو امام ابن ماجہ (م 273ھ)نے’’سنن ابن ماجہ‘‘(4 / 716) رقم الحدیث: 3809،ط: دار الرسالة العالمية)میں ذکر کیا ہے۔
2۔ حافظ ابن أبي شيبہ( م 235ھ)نے ’’مصنف ابن ابی شیبہ " (15 / 218) رقم الحدیث :30028،ط:دارالقبلہ) میں نقل کیا ہے۔
۳۔امام احمد بن حنبل(م 241ھ) نے ’’مسند احمد‘‘(30 / 312) ،رقم الحدیث:18362،ط:مؤسسۃ الرسالہ )میں نقل کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
امام حاکم ؒ(م405ھ) نے اس حدیث کو ’’امام مسلم کی شرط کے مطابق قرار دیا اور علامہ بوصیریؒ(م 840ھ) نے فرمایا:یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
تشریح:
اس حدیث مبارکہ میں جن کلمات تسبیح (سبحان الله) تہلیل (لا إله إلا الله) اور تحمید (الحمد لله) کی فضیلت کا ذکر ہے، ان کلمات کے پڑھنے کی فضیلت اور بھی بہت سی صحیح روایات میں بیان کی گئی ہے۔
مسلم شریف (حدیث نمبر: 2695) کی ایک روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں کہوں «سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» تو یہ مجھ کو زیادہ پسند ہے، ان تمام چیزوں سے جن پر آفتاب نکلتا ہے۔"
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چار کلمے تمام کلمات سے بہتر ہیں اور جس سے بھی تم شروع کرو، تمہیں کوئی نقصان نہیں، وہ یہ ہیں"سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر".(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 3811)
2۔’’ یہ کلمے عرش کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں، ان میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے۔‘‘ اس جملے کا مطلب ہے کہ قیامت کے دن ان کلمات کی شکل و صورت شہید کی مکھیوں کی طرح ہوگی، اور اعمال کا مختلف شکلوں میں متشکل ہونا احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
3۔’’ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز‘‘ اس جملہ میں ان کلمات کا کثرت کے ساتھ ذکر کرنے والے کی تشبیہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز سے دی گئی ہے۔
4۔’’ اپنے کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔الخ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کلمات کے پڑھنے والا کا تذکرہ مقام اعلی میں ہوتا ہے، گویا اس جملہ میں ان کلمات کے پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجة :(4 / 716) رقم الحدیث: 3809،ط: دار الرسالة العالمية
حدثنا أبو بشر بكر بن خلف قال: حدثني يحيى بن سعيد، عن موسى بن أبي عيسى الطحان، عن عون بن عبد الله، عن أبيه، أو عن أخيه، عن النعمان بن بشير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن مما تذكرون من جلال الله التسبيح، والتهليل، والتحميد ينعطفن حول العرش، لهن دوي كدوي النحل، تذكر بصاحبها، أما يحب أحدكم أن يكون له أو لا يزال له من يذكر به.؟
و الحدیث أخرجه أحمد في ’’مسنده‘‘ (30 / 312) (18362) ، (18388)، والبزار في ’’مسنده‘‘ (8 / 199) (3236)وابن أبي شيبة في ’’مصنفه‘‘ (15 / 218) (30028) ، (19 / 322) (36185) والطبراني في ’’الكبير‘‘ (21 / 24) (2) ، (21 / 25) (3) والحاكم في ’’مستدركه‘‘ (1 / 678) (1841) ، (1 / 682) (1855)
مصباح الزجاجة للبوصيري: 4 /132،ط: دارالعربية )
هذا إسناد صحيح رجاله ثقات وأخو عون اسمه عبيد الله بن عتبة رواه ابن أبي الدنيا والحاكم وقال صحيح على شرط مسلم ورواه مسدد في مسنده عن يحيى بن سعيد القطان بإسناده ومتنه ورواه أبو بكر بن أبي شيبة في مسنده عن ابن نمير عن موسى بإسناده ومتنه
وقد أرده الحاكم في ’’مستدركه‘‘(1 / 678) (1841) وقال: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه
صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 2695، ط: دار إحياء التراث العربی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لأن أقول سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، أحب إلي مما طلعت عليه الشمس.
سنن ابن ماجة :(4 / 716،رقم الحدیث: 3811،ط: دار الرسالة العالمية)
عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أربع أفضل الكلام لا يضرك بأيهن بدأت: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر "
حاشية السندي على سنن ابن ماجة: (2/424، ط: دار الجيل)
قوله: (إن مما تذكر ن من جلال الله التسبيح) بالنصب اسم إن والجار والمجرور خبر مقدم ومن جلال الله بيان للموصول المجرور وجملة ينعطفن استئناف لبيان حال التسبيح وغيره، وهذا مبني على تشكيل الأعمال والمعاني بأشكال، وهذا مما يدل عليه أحاديث كثيرة (لهن دوي) بفتح الدال وكسر الواو وتشديد الياء هو ما يظهر من الصوت ويسمع عند شدته وبعده في الهواء شبيها بصوت النحل (تذكر) من التذكير (من يذكر به) التعبير بمن موضع ما باعتبار أن المذكر عادة يكون من العقلاء،
بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني: (14/225، ط: دار إحياء التراث العربی)
والمعنى أن التسبيح والتحميد والتكبير والتهليل من تعظيم الله عز وجل وأنها (تذكر بتشديد الكاف) بصاحبها أي يكون منها هذا الدوي حول العرش لأجل التذكير في المقام الأعلى بقائلها ولهذا قال في آخر الحديث (ألا يحب أحدكم أن يزال له عند الله شيء يذكر به) وفي هذا حض على الذكر بهذه الألفاظ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی