سوال:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کا وضو نہیں، اس کی نماز نہیں اور جو نماز نہ پڑے، اس کا کوئی دین نہیں، نماز کا درجہ دین میں ایسا ہے، جیسے سر کا درجہ بدن میں ہے، یعنی جس طرح سر کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح نماز کے بغیر دین زندہ نہیں رہ سکتا۔ تصدیق کردیں کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟
جواب: سوال میں دریافت کردہ روایت کو امام طبرانی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب "المعجم الأوسط" میں ذکر کیا ہے، اور راویان حدیث"مندل اور حسین الحکم " کو متفرد قرار دیا ہے،نیز علامہ ہیثمی نے" مجمع الزائد" میں اور حافظ منذری نے "الترغیب والترهيب" میں امام طبرانی رحمہ اللہ کے اسی تبصرہ پر اکتفاء کیا ہے، چونکہ مذکورہ روایت کے مفہوم پر مشتمل متعدد روایات مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں، جو " شواہد" کا درجہ رکھتی ہیں،لہذا اس مفہوم کو آگے نقل کرنے کی گنجائش ہے۔
ذیل میں "المعجم الأوسط" میں ذکر کردہ حدیث کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جس میں امانت نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں اور جس کی نماز نہیں اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں، بلاشبہ نماز کا دین میں ایسا ہی مقام ہےجیسا کہ سر کا جسم میں ہے"۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، 2/ 383، رقم الحديث: (2292) ط: دار الحرمين)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الحدیث وحكمه:
المعجم الأوسط، لأبي القاسم سلیمان الطبراني: (باب الألف ، من اسمه أحمد، 383/2، رقم الحديث: 2292، ط: دار الحرمين)
عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا صلاة لمن لا طهور له، ولا دين لمن لا صلاة له، إنما موضع الصلاة من الدين كموضع الرأس من الجسد»
وقال الطبرانی: لم يرو هذا الحديث عن عبيد الله بن عمر إلا مندل، ولا عن مندل إلا حسن، تفرد به: الحسين بن الحكم.
والحديث أورده الهيثمي أيضا في "مجمع الزوائد"، 1/ 292، رقم الحديث: (1614)، كتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، المحقق: حسام الدين القدسي، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة۔
وذکره المنذري في "الترغيب والترهيب أيضا، (1/ 150، رقم الحديث: (553)، کتا ب الصلاۃ، باب الترغيب في الصلوات الخمس والمحافظة عليها والإيمان بوجوبها، المحقق: إبراهيم شمس الدين، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
مسند أحمد، لأبي عبدالله أحمد بن حنبل الشیباني: (مسند أنس بن مالک، 376/19، رقم الحدیث: 12383، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة)
عن أنس بن مالك قال: ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له "۔
السنة، لأبي بکر أحمد بن محمد الخلال البغدادي، باب مناکحة المرجئة، 146/4، رقم الحدیث:1384، المحقق: د. عطية الزهراني، الناشر: دار الراية - الرياض:
عن أم الدرداء حدثته، أنها سمعت أبا الدرداء، يقول: «لا إيمان لمن لا صلاة له، ولا صلاة لمن لا وضوء له»
شرح مشکل الآثار، لأبي جعفر الطحاوي، (باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في حديث عروة بن مضرس: " ومن لم يدرك الوقوف بجمع، فلا حج له "، 113/12، رقم الحدیث:4693، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، الناشر: مؤسسة الرسالة)
قوله ﷺ: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له " فلم يكن ذلك منه صلى الله عليه وسلم على أن من لا أمانة له خارج من الإيمان، داخل في ضده، ولكنه في إيمان دون الإيمان الذي مع أهله الأمانة، وكذلك قولهﷺ : " ولا دين لمن لا عهد له " لم يرد بذلك أنه لا دين له، ولكن أراد أنه لا دين له كالدين الذي مع من له العهد۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی