سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا سوال یہ تھا کہ گھر میں بلی پالنا کیسا ہے؟ نیز اگر وہ کسی کھانے پینے کی چیز پر منہ مار دے، تو اس چیز کو استعمال میں لاسکتے ہیں یا نیہں؟ نیز کیا بلی نجس ہے؟ براہ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں۔
جواب: بلی پاک جانور ہے، اسکا پالنا شرعاً جائز (مباح) ہے، بشرطیکہ اس کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا خیال رکھا جائے۔
عام حالات میں بلی کا جھوٹا مکروہ ہے، لہذا اگر اللہ نے وسعت دی ہو، تو اس کے جھوٹے کو استعمال نہ کرے، البتہ غریب کے لئے بلی کا جھوٹا استعمال کرنا جائز ہے۔
لیکن اگر بلی نے چوہا یا کوئی اور نجس چیز کھانے کے فورا بعد کسی برتن وغیرہ میں منہ ڈال کر کھانے پینے کی چیز کو جھوٹا کردیا ہو، تو ناپاک ہونے کی وجہ سے اس جھوٹے کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
معارف السنن: (329/1، ط: دار الکتاب)
قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: إن الہر من متاع البیت لن ینقذر شیئاً ولن ینجّسہ۔ أخرجہ الزیلعي.
رد المحتار: (224/1، ط: دار الفکر)
(قوله طاهر للضرورة) بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها؛ لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس، لكن سقط حكم النجاسة اتفاقا بعلة الطواف المنصوصة بقوله - صلى الله عليه وسلم - إنها ليست بنجسة، إنها من الطوافين عليكم والطوافات " أخرجه أصحاب السنن الأربعة وغيرهم، وقال الترمذي حسن صحيح؛ يعني أنها تدخل المضايق ولازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، وفي معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة وبقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی