عنوان: کیا سابقہ تمام اقوام پر عذاب آنے کی وجہ "حقوق العباد" میں کوتاہی کرنا تھی؟ (9333-No)

سوال: کیا یہ بات "قرآن مجید میں جتنی بھی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے، ان میں سے ایک بھی قوم کی تباہی کی وجہ روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑنا نہیں تھی، بلکہ کم تولنا، رشوت ستانی، انصاف نہ کرنا، کسی کا حق کھانا، ملاوٹ کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا تھا"، اگر سادہ الفاظ میں کہوں تو عذاب آنے کی وجہ حقوق اللہ نہیں، بلکہ صرف حقوق العباد میں کمی کرنا تھی۔ کیا ایسا کہنا صحیح ہے؟

جواب: ۱) جب "حقوق اللہ" اور حقوق العباد" میں تعارض ہو جائے تو اس وقت حقوق العباد کو ترجیح ہوتی ہے، اس بات کا فیصلہ ماہرین شریعت علمائے کرام ہى کرسکتے ہیں کہ کس موقع پر "حقوق العباد" کو "حقوق اللہ " پر ترجیح دینى چاہیے، عام آدمى چونکہ احکام شریعت کى حدود وقیود سے پورى طرح واقف نہیں ہوتا ہے، اس لیے وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہے، اس لیے اس بارے میں مستند علمائے کرام سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔
نیز "حقوق العباد" کى ادائیگى بھى در حقیقت "حقوق اللہ" کى ادائیگى ہے، کیونکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، اگر کوئی حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ جہاں اس بندے کا مجرم ہوتا ہے، وہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کى بجا آورى میں کوتاہى کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ "حقوق العباد" کى تاکید کرتے ہوئے بعض لوگ حد سے تجاوز کرتے ہیں، ان لوگوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کسى نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کى ضرورت نہیں ہے، بس بندوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے، یہ لوگ ہر حال میں "حقوق العباد" کو اللہ تعالى کے حقوق پر مقدم رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کا حقوق العباد کے بارے میں مفہوم بھى خود ساختہ ہوتا ہے۔ جہاں کسى حکم شرعی پر عمل کرنے میں کسى بندے نے ناراضگى کا اظہار کیا تو یہ لوگ فورا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کسى کا دل نہیں دکھانا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ تو اپنا حق معاف کر دے گا، ہمیں تو بس بندوں کو خوش رکھنا چاہیے، رفتہ رفتہ وہ لوگ احکام شریعت کو (معاذاللہ) خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
۲) سوال میں جو دعوى کیا گیا ہے کہ "قرآن کریم میں جتنى قوموں کى تباہى کا ذکر ہے، ان کى تباہى کى وجہ صرف حقوق العباد میں کوتاہى کرنا تھا" یہ بات خلافِ حقیقت ہے، بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ تمام انبیائےکرام علیہم السلام کى قدرِ مشترک دعوت توحید بارى تعالى اور شرک سے بیزارى ہوتى تھى۔حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب، حضرت ابراہیم اور دیگر تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کى بنیادى دعوت توحید بارى تعالى ہوتی تھی۔ بطور نمونہ "سوره ہود" کی چند آیات کو حواشی میں ذکر کیا جاتا ہے، جن میں مذکورہ بالا انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا تذکرہ ہے، ان آیات کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام کو جو بنیادی دعوت دی گئی تھی، وہ توحید باری تعالیٰ اور شرک سے بیزاری کی دعوت تھی، سو ان اقوام نے اپنے پیغمبر کی اس دعوت کو جھٹلایا اور سرکشی اختیار کی، تب ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسایا گیا، اگرچہ ان اقوام میں دیگر بہت سی برائیاں بھی تھیں جن میں سے بعض کا تعلق حقوق اللہ سے تھا، جیسے قوم لوط کی ہم جنس پرستی اور بعض برائیوں کا حقوق العباد سے تعلق تھا، جیسے قوم شعیب کا ناپ تول میں کمی کرنا، قوم عاد و ثمود کا غرور وتکبر کرنا وغیرہ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سابقہ اقوام پر عذاب آنے کی وجہ صرف حقوق العباد میں کمی نہیں تھی، بلکہ بسا اوقات حقوق اللہ میں کمی و کوتاہی کی وجہ سے بھی عذاب آیا ہے۔
نوٹ: سابقہ اقوام کے مفصل حالات سے مزید واقفیت کے لیے "قصص القرآن" (مؤلفہ: حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ) کا مطالعہ کرنا مفید ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (ھود، الاية: 25- 26)
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ ۫ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌo اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 50)
وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُفۡتَرُوۡنَo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 53- 54)
قَالُوۡا یٰہُوۡدُ مَا جِئۡتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحۡنُ بِتَارِکِیۡۤ اٰلِہَتِنَا عَنۡ قَوۡلِکَ وَ مَا نَحۡنُ لَکَ بِمُؤۡمِنِیۡنَo اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰٮکَ بَعۡضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اُشۡہِدُ اللّٰہَ وَاشۡہَدُوۡۤا اَنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 61- 62)
وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡہُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌo قَالُوۡا یٰصٰلِحُ قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ ہٰذَاۤ اَتَنۡہٰنَاۤ اَنۡ نَّعۡبُدَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 84)
وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ وَ لَا تَنۡقُصُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ اِنِّیۡۤ اَرٰٮکُمۡ بِخَیۡرٍ وَّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ مُّحِیۡطٍo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 87)
قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ اَصَلٰوتُکَ تَاۡمُرُکَ اَنۡ نَّتۡرُکَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّفۡعَلَ فِیۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ اِنَّکَ لَاَنۡتَ الۡحَلِیۡمُ الرَّشِیۡدُo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الاية: 101)
وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍo

قواعد الأحكام في مصالح الأنام: (167/1، ط: مکتبة الکلیات الازھریة)
"(فائدة) ما من حق للعباد يسقط بإسقاطهم أو لا يسقط بإسقاطهم إلا وفيه حق لله، وهو حق الإجابة والطاعة، سواء كان الحق مما يباح بالإجابة أو لا يباح بها، وإذا سقط حق الآدمي بالعفو فهل يعزر من عليه الحق لانتهاك الحرمة؟ فيه اختلاف والمختار أنه لا يسقط إغلاقا لباب الجرأة على الله عز وجل".

البداية و النهاية: (كتاب الجامع لأخبار الأنبياء و المتقدمين، 95/3، ط: دار هجر للطباعة)
"وتقدم في الحديث «نحن معشر الأنبياء أولاد علات، ديننا واحد، وأمهاتنا شتى» والمعنى أن شرائعهم، وإن اختلفت في الفروع، ونسخ بعضها بعضا حتى انتهى الجميع إلى ما شرع الله لمحمد صلوات الله وسلامه عليه وعليهم أجمعين، إلا أن كل نبي بعثه الله فإنما دينه الإسلام وهو التوحيد أن يعبد الله وحده لا شريك له، كما قال الله تعالى {وما أرسلنا من قبلك من رسول إلا نوحي إليه أنه لا إله إلا أنا فاعبدون} [الأنبياء: 25] وقال تعالى {واسأل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون} [الزخرف: 45] وقال تعالى {ولقد بعثنا في كل أمة رسولا أن اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت فمنهم من هدى الله ومنهم من حقت عليه الضلالة} [النحل: 36] الآية [النحل: 36] فأولاد العلات أن يكون الأب واحدا والأمهات متفرقات فالأب بمنزلة الدين وهو التوحيد والأمهات بمنزلة الشرائع في اختلاف أحكامها، كما قال تعالى. وقال {لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه} [الحج: 67] وقال {ولكل وجهة هو موليها} [البقرة: 148] على أحد القولين في تفسيرها. والمقصود أن الشرائع، وإن تنوعت في أوقاتها إلا أن الجميع آمرة بعبادة الله وحده لا شريك له وهو دين الإسلام الذي شرعه الله لجميع الأنبياء وهو الدين الذي لا يقبل الله غيره يوم القيامة. كما قال تعالى {ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين} [آل عمران: 85] وقال تعالى {ومن يرغب عن ملة ابراهيم إلا من سفه نفسه ولقد اصطفيناه في الدنيا وإنه في الآخرة لمن الصالحين - إذ قال له ربه أسلم قال أسلمت لرب العالمين - ووصى بها إبراهيم بنيه ويعقوب يا بني إن الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون} [البقرة: 130 - 132] [البقرة: 130 - 132] وقال تعالى {إنا أنزلنا التوراة فيها هدى ونور يحكم بها النبيون الذين أسلموا للذين هادوا} [المائدة: 44] الآية [المائدة: 44] فدين الإسلام هو عبادة الله وحده لا شريك له وهو الإخلاص له وحده دون ما سواه والإحسان أن يكون على الوجه المشروع في ذلك الوقت المأمور به، ولهذا لا يقبل الله من أحد عملا بعد أن بعث محمدا صلى الله عليه وسلم، إلا على ما شرعه له، كما قال تعالى {قل ياأيها الناس إني رسول الله إليكم جميعا} [الأعراف: 158] وقال تعالى {وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به ومن بلغ} [الأنعام: 19] وقال تعالى {ومن يكفر به من الأحزاب فالنار موعده} [هود: 17] وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بعثت إلى الأحمر والأسود» قيل: أراد العرب والعجم. وقيل: الإنس والجن. وقال صلى الله عليه وسلم «والذي نفسي بيده لو أصبح فيكم موسى".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1094 Mar 07, 2022
kia sabqa tamam aqwam per / par azab aane / aaney ki waja " huqoqul ibad" me / mein / may kotahi karna thi / the?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.