سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مجھ میں ocd کی بیماری تشخیص ہوئی ہے، یہ وہم اور وساوس کی بیماری ہے، مجھے بہت طلاق کے وسوسے آتے ہیں، جب یہ وسوسے آتے ہیں، تو ذہن کنٹرول میں نہیں رہتا، اور جب تک ان وساوس کو میں اتنی ہلکی آواز میں نہ بولوں یعنی کہ ہونٹ ہلے اور آواز نہ آئے، تو سکون نہیں ملتا، میری کوئی طلاق کی نیت، ارادہ نہیں ہوتا، میں بس اس نیت سے ان کو دہرا رہا ہوتا ہوں کہ کہیں میں نے آواز نہ نکالی ہو، کل بھی مجھے ایسے وساوس آئے کہ اچانک میرا منہ کھلا ہوا تھا، اور میری زبان ہلکی سی ہل گئی، پھر نہ رکنے والے خیالات اور وساوس آنا شروع ہو گئے، پھر میں ان وسوسوں کو ہلکی آواز میں جو سنائی نہ دے، بولنے لگتا ہو، یہ جاننے کے لئے کہ کہیں کچھ بولا تو نہیں، میں پہلے اس بیماری کی دوا لے رہا تھا، لیکن پھر چھوڑ دی اور پھر سے یہ مرض ہو گیا ہے، اس حالت می شریعت کیا حکم دیتی ہے، جب ان وسوسوں کو بولتا ہوں، تو میری کوئی طلاق کی نیت نہیں ہوتی، اگر نہیں بولتا، تو پریشانی شروع ہو جاتی ہے، اور کنٹرول میں نہیں اور لفظ خود بخود آنے لگتے ہیں۔ براہ کرم مجھے بتادیں کہ کہیں اس طرح طلاق تو نہیں ہوئی؟
جواب: یاد رہے کہ OCD (Obsessive Compulsive Disorder) ایک نفسیاتی مرض ہے، جس میں مبتلا انسان کو اپنے ذہن پر کنٹرول نہیں رہتا، اور اسے مختلف قسم کے وساوس آتے رہتے ہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے بیوی کا نام اور اس کی طرف نسبت کیے بغیر طلاق کا خیال اور وسوسہ زبان سے دہرایا ( جیسے صرف طلاق کا لفظ کہا)، اور اس سے بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہیں تھی، تو اس صورت میں آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاۃ المفاتیح: (227/1، ط: مکتبة فیصل، بشاور)
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " ان اللہ تجاوز عن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ".
"الخواطر ان کانت تدعو الی الرذائل فہی وسوسۃ....ماوسوست بہ صدورہا ای ماخطر فی قلوبہم من الخواطر الردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا، او تتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا"۔
الدر المختار: (250/3، ط: سعید)
لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها۔
کذا فی فتاویٰ دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 149381
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی