resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "اللہ تعالی نے امت محمدیہ علی صاحبها الصلاۃ والسلام کو تین مصیبتوں سے محفوظ فرما دیا ہے" حدیث کی تشریح (9362-No)

سوال: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا ہے: ایک یہ کہ تمہارا نبی تم پر ایسی بدعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، دوسری یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آئیں گے، تیسری یہ کہ تم سب گمراہی پر متفق نہیں ہوگے۔ (سنن ابی داؤد، 4250) مفتی صاحب !اس حدیث میں دوسری اور تیسری بات کی تشریح کر دیں۔ جزاکم الله خيرا

جواب: سوال میں مذکور حدیث کا ترجمہ اور اس کے دو اجزاء کى تشریح مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ: حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں (امت محمدیہ علی صاحبها الصلاۃ والسلام) کو تین چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے:(1) تمہارا نبی تمہارے لیے ایسی بددعا نہیں کرے گا، جس کے نتیجے میں ساری امت تباہ ہو جائے، (جیسا کہ گزشتہ امتوں میں سے بعض امتوں کی سرکشی پر ان کے نبی نے بد دعا کی، جس کے نتیجے میں ساری کی ساری امت تباہ وبرباد ہو گئی)۔(2) حق والوں پر باطل والے کبھى غالب نہیں آ ئیں گے۔(3) کبھی ساری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی"۔ (سنن أبی داود: حدیث نمبر: 4250) (1)
حدیث میں مذکور دوسرے اور تیسرے حصے کی مختصر تشریح:
اہل ِباطل کا اہل ِحق پر مکمل ایسا غلبہ کبھی نہیں ہوگا کہ اہل حق کا نام ونشان ہی مٹ جائے، ہاں! بعض اوقات کسی مقام پر اہل باطل کو اہل حق پر جزوی غلبہ حاصل ہو سکتا ہے، اس حدیث مبارک میں اس کی نفی نہیں کی گئی ہے، بلکہ کلی غلبے کی نفی مراد ہے(یعنى سارى دنیا میں باطل کا غلبہ ہو جائے اور حق بالکل مغلوب ہو جائے، ایسا نہیں ہوگا)۔
ساری امت کا گمراہی پر متفق ہونا محال ہے، خواہ وہ گمراہی عقیدے کی ہو، یا فروعی مسائل وغیرہ کی، چنانچہ یہ مشہور ہے کہ یہ حدیث اجماع امت کے "حجت ِشرعی" ہونے کی دلیل ہے۔
(ماخذہ از الدر المنضود شرح سنن أبی داود: 6/ 216، ط: مکتبۃ الشیخ، بہادر آباد، کراچی) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) سنن أبي داود: (كتاب الفتن، رقم الحديث: 4250، 17/5، ط: دار المنهاج)
عن أبي مالك, يعني الأشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله أجاركم من ثلاث خلال: أن لا يدعو عليكم نبيكم فتهلكوا جميعا، وأن لا يظهر أهل الباطل على أهل الحق، وأن لا تجتمعوا على ضلالة".

(2) بذل المجهود: (كتاب الفتن، رقم الحديث: 4253، 288/12، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)
"وأن لا يظهر أهل الباطل على أهل الحق) أي فيفنيهم (وأن لا تجتمعوا على ضلالة) بل لا تزال طائفة من أمتي على الحق، كما تقدم من الحديث".
شرح سنن أبي داود لابن رسلان: (676/16، ط: دار الفلاح)
(وألا تجتمعوا على ضلالة) لفظ الترمذي: "لا تجتمع هذِه الأمة على ضلالة" وزاد ابن ماجه: "فإذا وقع الاختلاف فعليك بالسواد» الأعظم" مع الحق وأهله، وقد استدل به الغزالي وغيره من الأصوليين على كون الإجماع حجة".

مرقاة المفاتيح :(9/ 3682، ط: دار الفكر)
"(وأن لا تجتمعوا على ضلالة) أي: وأن لا تتفقوا على شيء باطل، وهذا يدل على أن إجماع الأمة حجة، وأن ما هو حسن عند الناس فهو حسن عند الله ويقويه قوله تعالى: (ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا)، فهذا مأخذ حسن لقولهم الإجماع حجة استنبطه الشافعي - رحمه الله - من الكتاب".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء، الاخلاص،کراچی

"ummate Muhammadya ala sahibha alasalat o wasalam ko Allah tala ne / nay teen / 3 musibton se / say mehfoz farmadia he / hay" is hadees ki tashreh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees