سوال:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا ہے: ایک یہ کہ تمہارا نبی تم پر ایسی بدعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، دوسری یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آئیں گے، تیسری یہ کہ تم سب گمراہی پر متفق نہیں ہوگے۔ (سنن ابی داؤد، 4250) مفتی صاحب !اس حدیث میں دوسری اور تیسری بات کی تشریح کر دیں۔ جزاکم الله خيرا
جواب: دریافت کردہ روایت کو امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اپنی "سنن" میں ذکر کیا ہے، روایت کی سند میں ایک راوی "اسماعیل بن عیاش" پر محدثین عظام نے کلام کیا ہے، اور ذکرکردہ روایت کو منقطع قرار دیا ہے، چونکہ مذکورہ راوی کا اپنے والد سے سماع ثابت نہیں ہے ، تاہم روایت کے مختلف شواہد، بالخصوص آخری جزء، جس کو علماء کرام نے حدیث مشہور کے قبیل سے قرار دیا ہے، سو اس بناء پر روایت کو تقویت مل رہی ہے، لہذا روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔
حدیث میں ذکر کردہ "دوسری اور اور تیسری آفت" سے حفاظت کی تشریح:
(1)اہل باطل اہل حق پر مکمل طور پر کبھی غالب نہیں آئیں گے: اس حصہ کی تشریح شارحین ِ حدیث نے لکھا کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اہل باطل کا اہل حق پر مکمل ایسا غلبہ کبھی نہیں ہوگا کہ اہل حق کا نام ونشان ہی بالکل سرے سے مٹ جائے، تاہم بعض اوقات کسی مقام پر اہل باطل کو اہل حق پر جزوی طور پر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے، جو حدیث بالا کے مضمون کے منافی نہیں ، کیونکہ روایت میں کُلی غلبہ کی نفی کے حوالہ سے پیش گوئی فرمائی ہے، چنانچہ سخت سے سخت ترین حالات میں بھی اہل حق کی کم از کم ایک مسلمانوں کی جماعت ان کے خلاف بر سرِ پیکار دین وشریعت کی پاسداری میں نظر آتی ہے۔
(2) ساری امت کا گمراہی پر متفق ہونا محال ہے، خواہ وہ گمراہی عقیدے کی ہو، یا فروعی مسائل وغیرہ کی، چنانچہ متعدد روایات میں آتا ہے کہ جب لوگوں میں اختلافات بڑھنے لگ جائیں تو ایسے موقع پر سواد اعظم (اکثریت) کے ساتھ رہو۔ سو اس روایت کی روشنی میں علماء اصولیین نے ضابطہ تحریر کیا ہے کہ امت کی اکثریت کا کسی بات پر متفق ہوجانا تو اس عمل کو حجت تسلیم کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
سنن أبي داود، لأبي داؤد سلیمان بن أشعث السجستاني، كتاب الفتن، 98/4، رقم الحديث: 4250، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت :
عن أبي مالك يعني الأشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله أجاركم من ثلاث خلال: أن لا يدعو عليكم نبيكم فتهلكوا جميعا، وأن لا يظهر أهل الباطل على أهل الحق، وأن لا تجتمعوا على ضلالة "
المفاتيح في شرح المصابيح، تتمة المفاتیح، لمظهر الدین الزیداني، باب فضائل سید المرسلین، 100/6، ط: دار النوادر:
والثانية: "أن لا يظهر أهل الباطل على أهل الحق"، قيل: ألا يغلب الكفار على المسلمين، بصرفهم عما هو حق؛ يعني: عن الإسلام إلى الكفر، كما فعل الكفار بقوم موسى -عليه السلام- في غيبته بأن حملوهم على عبادة العجل، قال الله تعالى: {هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله} [التوبة: 33]. والثالثة: "أن لا تجتمعوا على ضلالة"، قيل: معناه: لا تتفقوا على شيء باطل، فإنكم إذا اتفقتم على شيء فهو حق، يقوم مقام النص، ومن خالفه فهو على الباطل، قال الله تعالى: {ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا} [النساء: 115] ، وفيه دليل على أن إجماع الأمة متبع في الأحكام الشرعية۔
التلخيص الحبير، کتاب النکاح، فصل في التخفیف في النکاح، 299/3، رقم الحدیث:1471، الناشر: دار الكتب العلمية:
"وأمته معصومة، لا تجتمع على الضلالة"، هذا في حديث مشهور، له طرق كثيرة لا يخلو واحد منها من مقال۔ منها: لأبي داود عن أبي مالك الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعا "إن الله أجاركم من ثلاث خلال، أن لا يدعو عليكم نبيكم لتهلكوا جميعا، وألا يظهر أهل الباطل على أهل الحق، وأن لا يجتمعوا على ضلالة"، وفي إسناده انقطاع. وللترمذي والحاكم عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعا "لا تجتمع هذه الأمة على ضلال أبدا"، وفيه "سليمان بن شعبان المدني" وهو ضعيف، وأخرج الحاكم له شواهد۔
ويمكن الاستدلال له بحديث معاوية-رضي الله عنه- مرفوعا "لا يزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم، حتى يأتي أمر الله"، أخرجه الشيخان"۔
عون المعبود شرح سنن أبي داود، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلها، 219/11، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت :
وقال المنذري: "أبوه" تكلم فيه غير واحد۔ وقال الحافظ في "التلخيص": في إسناده انقطاع، وله طرق لا يخلو واحد منها من مقال۔ وقال في موضع آخر: "سنده حسن"؛ فإنه من رواية "ابن عياش" عن الشاميين، وهي مقبولة۔ وله شاهد عند أحمد، رجاله ثقات، لكن فيه راو لم يسم۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء، الاخلاص،کراچی