سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک خاتون کی صرف تین بیٹیاں ہیں، بیٹا کوئی نہیں، اس خاتون کو ان کے والدین کی طرف سے کافی جائیداد ملی، اور شوہر کا ایک سال پہلے انتقال ہو چکا ہے، ان کے شوہر نے بھی اپنا سب کچھ بیوی کے نام کر دیا تھا، جب ان کے شوہر حیات تھے، اس وقت انہوں نے اپنی 2 بڑی بیٹیوں کی وقتاً فوقتاً بہت مدد کی، کبھی لاکھ روپے تو کبھی 50 ہزار، کبھی فرج، گیزر اور دیگر سامان دے کر بہت مدد کی، مگر سب سے چھوٹی تیسری بیٹی کو کبھی کچھ نہیں دیا۔
ان کی سب سے بڑی بیٹی نے اپنے والد کی حیات میں اپنی امی سے تقریباً 55 لاکھ قرض کے طور پر مانگے تھے، والدہ کو اپنے والدین کی طرف سے جو وراثت ملی تھی، والدہ نے اپنی بیٹی کو اس میں سے 55 لاکھ بطورِ قرض دے دیے۔
اب جب والد کا انتقال ہو گیا ہے، تو اس بڑی بیٹی کا کہنا ہے کہ میں اتنا بڑا قرض چکا نہیں سکتی، تو اس لئے جب والد کی جائیداد کا بٹوارہ ہوگا، تو میں اس میں لکھوا دوں گی۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ جو سب سے چھوٹی بیٹی ہے، والدہ نے کبھی اس کو کچھ بھی نہیں دیا، نہ ہی کسی قسم کی پیسوں یا سامان سے مدد کی، مگر جب اس چھوٹی بیٹی کے پاس رہنے کے لئے گھر اور سر پر چھت نہیں تھی، تو اس کی والدہ نے اپنے والدین کی طرف سے جو وراثت ملی تھی، اس میں سے گھر خرید کر ایک کروڑ روپے بطور ہدیہ اس چھوٹی بیٹی کو دے دیا۔
اب ایک سوال تو یہ ہے کہ جس طرح سب سے چھوٹی بیٹی کو والدہ نے اپنے والدین کی طرف سے ملی ہوئی میراث میں سے گھر کا تحفہ دیا ہے، تو کیا ضروری ہے کہ باقی 2 بڑی بیٹیوں کو بھی اتنا ہی ہدیہ کے طور پر دیں؟ جب کہ اس سے پہلے وہ وقتاً فوقتاً اپنی باقی دونوں بیٹیوں کی ہر طرح سے مدد کرتی رہتی تھی، اور چھوٹی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دیا تھا، اس لیے اس کو یہ رقم دی، تو کیا اس صورت میں باقی دو بڑی بیٹیوں کو دینا ضروری ہے؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اب اس خاتون کی دونوں بڑی بیٹیوں نے ہنگامہ مچا رکھا ہے کہ آپ نے چھوٹی کو کیوں اتنا پیسا یا گھر دیا؟ اب ہمیں بھی چاہیے، ہمارا بھی حق ہے، جب کہ ان کے والد کی جائیداد میں سے اب تک کوئی بٹوارہ نہیں ہوا ہے، جو کچھ والدہ نے دیا ہے، وہ سب اپنی ذاتی پراپرٹی میں سے ہی اولاد کو دیا ہے۔
بڑی بیٹی کا کہنا ہے کہ آپ نے مجھے جو 55 لاکھ قرض دیے تھے اور چھوٹی بیٹی کو ہدیہ دیے تھے، اب میں وہ 55 لاکھ والا قرض بھی واپس نہیں کروں گی، کیونکہ وہ میرا حق ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس پوری صورتحال میں اس خاتون کو کیا کرنا چاہیے؟ شریعت کی رو سے کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ (gift) کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد تمام اولاد میں برابر تقسیم کی جائے، یعنی ہر ایک کو برابر دیا جائے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلاً: اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتی ہیں، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوں گی۔
صورتِ مسئولہ میں اگر والدہ نے اپنی ضرورت مند چھوٹی بیٹی کو گھر خرید کر قبضہ کے ساتھ ہبہ کیا ہے، اور والدہ کا مقصد باقی بچیوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا نہیں ہے، تو ایسی صورت میں چھوٹی بیٹی کو گھر دینے کی گنجائش ہے، باقی دونوں بچیوں کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔
اسی طرح جس بیٹی نے پچاس لاکھ روپے قرض کے طور پر لیے ہیں، وہ والدہ کو واپس کرنا ضروری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية .... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔
مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ.........قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».
تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد....
الدر المختار: (696/5، ط: دار الفکر)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
البحر الرائق: (288/7، ط: دار الکتاب الاسلامی)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب..
رد المحتار: (690/5، ط: دار الفکر)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
الھندیة: (378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی