عنوان: "اگر کبھی کسی مرد سے بات کی یا کوئی رشتہ رکھا تو طلاق" کہنے کا کیا حکم ہے؟(9376-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! تین سال پہلے میرا نکاح ہوا تھا، لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ ”اگر کبھی کسی مرد سے بات کی یا کوئی رشتہ رکھا، تو تمہیں طلاق ہو جائے گی ہمارا نکاح ختم“ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد میرا کزن آ گیا، جس سے میری ایک چھوٹی سی چند الفاظ کی بات ہوئی، اب وہ کہتے ہیں کہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تمہیں طلاق دینے کا، میں قسم اٹھانے کو تیار ہوں، اس بات پر کہ میرا مطلب تھا کہ اگر کسی سے کبھی غلط بات کی، یا غلط رشتہ رکھا، جب کہ ان کو اچھی طرح سے پتہ ہے میرے کردار کا کہ میں کسی سے کوئی فضول بات نہیں کرتی، اب مجھے بتائیں کہ طلاق ہو گئی یا نہیں؟ اگر ہو گئی، تو ہم آگے کیا کر سکتے ہیں، کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔

جواب:
پوچھی گئی صورت میں آپ کے شوہر کا یہ کہنا کہ "اگر کبھی کسی مرد سے بات کی یا کوئی رشتہ رکھا، تو تمہیں طلاق ہو جائے گی، ہمارا نکاح ختم " عرفاً اس جیسے الفاظ سے خفیہ اور ناجائز روابط اور رشتے بنانا مراد ہوتا ہے، نیز شوہر بھی اسی معنیٰ کو مراد لینے پر حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار ہے، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے، اس لیے کسی مرد سے ضرورت کی بات کرنے سے جب كوئی بری نیت یا ناجائز رابطہ بنانا مقصد نہ ہو، طلاق واقع نہیں ہوگی۔
لہٰذا اگر آپ نے اپنے کزن سے اوپر ذکر کردہ شرط کے مطابق صرف ضرورت کی بات کی ہے، تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
تاہم آپ کو چاہیے کہ آپ نامحرم مردوں سے ضروری بات کے علاوہ بات چیت کرنے سے احتیاط اور اجتناب برتتی رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (784/3، ط: الحلبي، بيروت)
مطلب: (قوله نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاء) .... والعام تصح فيه نية التخصيص، لكن لا يصدقه القاضي لأنه خلاف الظاهر. واعلم أن الفعل لا يعم ولا يتنوع كما في تلخيص الجامع لأن العموم للأسماء لا للفعل هو المنقول عن سيبويه كذا في شرحه للفارسي. قلت: ويرد عليه ما مر من مسألة الخروج والمساكنة والشراء إلا أن يقال كما مر إن التنوع هناك للفعل بواسطة مصدره لا إصالة تأمل.
تنبيه: قيد بالنية لأن تخصيص العام بالعرف يصح ديانة وقضاء أيضا.

الهندية: (434/1، ط: دار الفكر)
ولو قال لها ا"كر تو باكسي حرام كنى فأنت طالق ثلاثا فأبانها فجامعها في العدة طلقت عندهما لأنهما يعتبران عموم اللفظ، وأبو ‌يوسف - رحمه الله تعالى - يعتبر ‌الغرض فعلى قياس قوله لا تطلق وعليه الفتوى ولو قال لها: إن قبلت أحدا فأنت طالق ثلاثا فقبلته تطلق. كذا في الخلاصة.

و فیه أيضا: (440/1، ط: دار الفکر)
ولو ‌حلف على امرأته بطلاقها أن لا تخرج من الدار إلا بإذني أو ‌حلف ‌السلطان ‌رجلا بطلاق امرأته أن لا يخرج من البلدة إلا بإذنه أو ‌حلف صاحب الدين مديونه أن لا يخرج من البلدة إلا بإذنه فاليمين مقيدة بحال قيام الزوجية والسلطنة والدين فإن بانت المرأة وعزل ‌السلطان وسقط الدين سقطت اليمين ثم لا تعود أبدا وإن عادت الولاية للزوج والسلطان وعاد الدين.
رجل ‌خرج مع الولي وحلف ‌بالطلاق أن لا يرجع إلا بإذنه وسقط منه شيء ورجع لذلك لا تطلق .... تشاجر مع امرأته فقال لها: إن خرجت من هنا اليوم فإن رجعت إلى سنة فأنت طالق ثلاثا فخرجت اليوم إلى الصلاة أو إلى غيرها من حاجة ثم رجعت فإن كان سبب اليمين خروج الانتقال أو السفر لا تطلق لأن اليمين مقيدة بذلك النوع من الخروج كذا في الفتاوى الكبرى..إلخ

إمداد الأحكام: (501/2)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 771 Mar 17, 2022
" agar kabhi kisi mard /admi se / say bat ki ya koi rishta rakha to talaq" kehne ka kia hokom / hokum hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.