عنوان: سرکاری ملازمین کا حکومت سے مکان بنانے کیلئے قرض لے کر اضافے کے ساتھ واپس کرنا (9377-No)

سوال: السلام علیکم، گزارش یہ ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے سرکاری ملازمین کے لیے مکان بنانے پر قرضہ کی مخصوص شرائط کے ساتھ سہولت دی جا رہی ہے۔
جسکی تفصیل یہ ہے کہ ملازم اپنے پلاٹ کو بینک کے نام پہ رہن کی صورت میں باقاعدہ رجسٹری کے ساتھ منتقل کریگا، اور بلدیہ سے نقشہ بھی پاس کروا کے ساتھ لف کرنا ہوگا، اور پھر اس نقشہ کے مطابق مکان بنانے کا بھی پابند ہوگا، باقی اپنی ملازمت کے حوالے سے بھی ضروری کاغذات وغیرہ جمع کروانے ہوں گے۔
بینک دس سال کے لیے دس لاکھ روپے اس ملازم کو دیگا، جو کہ ماہانہ دس ہزار روپے قسط کی صورت میں جمع کروانے ہوں گے، یوں دس سال کے بعد بارہ لاکھ پچاس ہزار روپے واپس کریگا، جبکہ لیے دس لاکھ تھے، اس کا کیا شرعی حکم ہے؟

جواب: مذکورہ صورت میں قرض پر مشروط اضافہ لیا جارہا ہے، جوکہ واضح طور پر سود ہے، جس کا لین دین ناجائز اور حرام ہے، لہذا اس سے اجتنا لازم ہے۔
البتہ جو غیر سودی بینک مستند علماء کرام کی زیر نگرانی کام کر رہے ہوں، اگر ان سے شرعی اصولوں (اجارہ یا مشارکہ) کے مطابق گھر خریدنے کی پالیسی لی جارہی ہو، تو اس کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278)
یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo

السنن الکبری للبیہقي: (کتاب البیوع، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا

أحكام القرآن للجصاص: (189/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
من الربا ما هو بيع ومنه ما ليس ببيع وهو ربا أهل الجاهلية وهو القرض المشروط فيه الأجل وزيادة مال على المستقرض۔

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 895 Mar 18, 2022
sarkari / government mulazmeen / worker's ka hukomat se / say makan / ghar / home banane / bananay k / kay liye qarz le / lay kar izafe / izafay k / kay sath wapis karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.