resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں سب پہلی جو مصیبت (بری عادت) آئی وہ شکم سیری تھی" اس حدیث کی تحقیق(9386-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت کی مکمل تحقیق مطلوب ہے، فرمایا: ”سب سے پہلی بدعت جو رائج ہوئی وہ پیٹ بھر کر کھانا ہے“، مفہوم ہے۔

جواب: جی ہاں! یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور یہ "موقوف "روایت ہے، محدثین کرام نے اس حدیث کو "ضعیف"قرار دیا ہے۔تاہم اس موقوف روایت کوشکم سیری اور بسیار خوری کى مذمت میں بیان کرنے میں کوئى مضائقہ نہیں ہے، ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور اس کى اسنادى حیثیت کو ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کا ارشاد ہے: آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں سب سے پہلی جو مصیبت (بری عادت) آئی ہے، وہ شکم سیری (پیٹ بھر کر کھانا کھانا) کی مصیبت ہے، کیونکہ جب لوگوں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں، تو ان کے جسم موٹے ہو جاتے ہیں، پھر ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور ان کی خواہشات نفسانی بے قابو ہو جاتی ہیں، (یعنی پھر گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس جب پیٹ خالی ہوں، تو نفسانی خواہشات قابو میں ہوتی ہیں اور گناہ کم ہوتے ہیں)۔(الجوع لابن أبی الدنیا: حدیث نمبر: 22)
تخریج الحدیث:
1- امام بخاری رحمہ اللہ (م 256ھ) نے اپنى کتاب "الضعفاء الکبیر" میں نقل کیا ہے، ان کے حوالے سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م 748ھ) نے اپنى کتاب "میزان الاعتدال" ج 5 ص 404، ط: دار الکتب العلمية، بیروت، میں نقل کیا ہے۔
2- اس حدیث کو امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ (م 281ھ) نے اپنی کتاب "الجوع" میں نقل کیا ہے، جیسا کہ رسائل ابن أبي الدنيامیں الجوع، ج 4 ص 82، رقم الحدیث (22)، ط: المكتبة العصرية، میں مذکور ہے۔
حدیث کى اسنادى حیثیت:
1- حافظ منذری رحمہ اللہ (م 656ھ) نےاپنى کتاب "الترغیب والترہیب" ج 3 ص 100، رقم الحديث(7)، ط: دار الكتب العلمية، میں اس حدیث میں نقل کرکے اس حدیث کے "ضعیف" ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو امام بخارى رحمہ اللہ نے "کتاب الضعفاء" اور امام ابن ابی الدنیا نے "کتاب الجوع" میں نقل کیا ہے۔
2- حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م 748ھ) نے اپنى کتاب "میزان الاعتدال" ج 5 ص 404، ط: دار الكتب العلمية، میں "غسان بن عبید الموصلی " کے تذکرے میں ان کى سند سے اس حدیث کو نقل فرما کر اس حدیث کے راوی "غسان بن عبید" کے متعلق کہا کہ اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "غسان بن عبید " کى احادیث میں ضعف واضح ہے، البتہ چونکہ اس حدیث موقوف ہے اور اس کامضمون شکم سیرى کى مذمت سےہے، لہذا اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کى طرف نسبت کر کے نقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) رسائل ابن أبي الدنيا: (الجوع، ج 4 ص 82، رقم الحدیث (22)، ط: المكتبة العصرية)
عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: قالت عائشة: "إن أول بلاء حدث في هذه الأمة بعد قضاء نبيها صلى الله عليه وسلم: الشبع، فإن القوم لما شبعت بطونهم سمنت أبدانهم، فتصعبت قلوبهم، وجمحت شهواتهم".

(2) والحديث ذكره الحافظ المنذري في "الترغيب والترهيب" (كتاب الطعام وغيره الترغيب في التسمية على الطعام والترهيب من تركها/ الترهيب من الإمعان في الشبع،3/ 100، رقم الحديث: (7)، ط: دار الكتب العلمية) بصيغة التمريض، وقال: رواه البخاري في "كتاب الضعفاء" وابن أبي الدنيا في "كتاب الجوع".
وقال الذهبي في "الميزان" ج 5 ص 404، ط: دار الكتب العلمية، "غسان بن عبيد الموصلي عن أبن ابي ذئب وشعبة وجماعة قال أحمد بن حنبل كتبنا عنه قدم علينا ههنا ثم خرقت حديثه ومن مناكير غسان ...عن هشام بن عروة عن أبيه قالت عائشة أول بلاء حدث في هذه الأمة بعد نبيها الشبع فإن القوم لما شبعت بطونهم سمنت أبدانهم فضعفت قلوبهم وجمحت شهواتهم أخرجه البخاري في الضعفاء وروى عباس وآخر عن يحيى بن معين ثقة يروي جامع سفيان وروى إبراهيم بن عبد الله بن الجنيد عن يحيى ضعيف وقال ابن عمار كان يعالج الكيميا وما حدث ههنا بشيء وقال الدارقطني صالح ضعفه احمد".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

"Nabi Akram Salalaho alihe wasalam ki wafat k / kay bad is ummat me / mein sab se / say pehli jo musibat (buri adat) aai wo shikam seri (peat bhar kar khana) thi",is hadis ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees