سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مسئلہ پوچھنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرا گھر بِک جائے، لیکن میرا گھر گلی میں کافی اندر کی طرف ہے، اچھا گھر ہے، 120 گز پر مشتمل 6 کمروں کا گھر ہے، لیکن گھر جتنے کا ہے، اتنے کا بِک نہیں رہا، تو میں نے سوچا کہ میں کم قیمت میں بیچ دوں، جیسے کہ 20 یا 25 لاکھ میں بیچ کر وہ پیسے بینک میں رکھوا دوں۔ پھر وہ بینک والے جو پیسے مجھے دیتے رہیں، اس سے میں دوسرے کسی گھر میں رہوں کرایہ پر، اور اسکا کرایہ دیتی رہوں، اگر پیسے زائد بچ جائیں، تو کرایہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کمیٹی بھی ڈال سکوں، تو کیا یہ جائز ہوگا یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اسلامک بینکنگ کیلئے مستند علماء کرام نے شریعت کے اصولوں کے مطابق ایک نظام تجویز کیا ہے، اور قانونی طور پر بھی اسلامی بینکوں پر اس نظام کی پابندی لازم ہے، لہذا جو غیر سودی بینک مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق معاملات سر انجام دے رہے ہیں، تو وہاں اکاؤنٹ میں پیسے رکھ کر منافع (Profit) حاصل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ غیر سودی بینک اپنے کسٹمرز سے مضاربت کے شرعی اصولوں کے مطابق معاہدہ کرتا ہے، جوکہ ایک جائز معاملہ ہے۔
جبکہ سودی بینک اپنے کسٹمرز کو قرض کی بنیاد پر سود (interest) دیتا ہے، جوکہ ناجائز اور حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 275)
وَاَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا....الخ
و قوله تعالی: (آل عمران، الآیة: 130)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی