سوال:
السلام علیکم، حضرت !کیا اس بات کی شرعی کوئی حقیقت ہے کہ خونی رشتوں میں شادی سے موروثی بیماریوں کو تقویت ملتی ہے اور کیا اس بنیاد پر رشتہ مسترد کیا جا سکتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ کوئى بھى بیماری ایک فرد سے دوسرے فرد کى طرف اللہ تعالى کے حکم اور ارادے کے بغیر منتقل نہیں ہوسکتی ہے، لہذا بیماری بذات خود مؤثر حقیقى نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالى ہى مؤثر حقیقى ہیں۔
آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے اس جہالت والے عقیدے کى سختى سے تردید فرمائى ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد مروى ہے:
"امراض کا متعدى ہونا (ایک سے دوسرے کو لگنا) اس کى کوئى حقیقت نہیں ہے اور بدشگونی کچھ بھی نہیں"۔
(صحیح البخارى: حدیث نمبر: 5707)
صحیح ابن حبان کى روایت میں ہے:
"حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے کوڑھ کے مریض کا ہاتھ پکڑ کر کھانے کے برتن میں رکھا اور فرمایا : بسم اللہ، ثقۃ باللہ، وتوکلا على اللہ (اللہ کے نام سے کھانا شروع کرتا ہوں، اللہ تعالى پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اللہ تعالى ہى پر توکل کرتے ہوئے)۔
(صحیح ابن حبان: حدیث نمبر: 6120)
لہذا موروثى بیماریوں کے منتقل ہونے کى بات محض ایک موہوم خدشہ ہے، يقينى اور لازمى سبب نہیں ہے، کیوں کہ عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خاندانوں میں قریبى رشتہ داروں میں ہى نکاح ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود عام طور پر موروثى امراض منتقل نہیں ہوتے ہیں، اگر ایک آدھ واقعہ ایسا ہو بھى جاتا ہے، تو اس کى وجہ سے کلى حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
لہٰذا قریبى رشتہ داروں کے ساتھ نکاح کرنا بلا شبہ جائز ہے، صرف موروثى بیماریوں کے متعدی ہونے کے وہم کے پیش نظر نکاح کو مسترد کرنا عقیدے کی کمزوری ہے، جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہاں! اگر کوئى شخص احتیاطى تدبیر کے طور پر ایسا کرتا ہے، تو اس کى گنجائش ہے، لیکن یہ گنجائش اس وجہ سے نہیں ہوگى کہ نکاح کرے گا، تو موروثى بیمارى منتقل ہوجائے گى، بلکہ ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر کہ ممکن ہے مورثى بیمارى منتقل ہو اور یہ بھى ممکن ہے کہ وہ منتقل نہ ہو۔
نیز قرآن کریم میں جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، تو اس میں اس بات کا کوئى اشارہ نہیں دیا گیا کہ اگر موروثى بیمارى منتقل ہونے کا خدشہ ہو، تو ایسى عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے۔
خود آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبى رشتہ داروں میں نکاح فرمایا ہے، اگر موروثى بیمارى منتقل ہونے کى کوئى حقیقت ہوتى، تو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم قریبى رشتہ داروں سے نکاح فرمانے سے منع فرماتے، حالانکہ خود آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنى پھوپھى زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور اپنى چہیتى صاحبزادى حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے چچازاد بھائى حضرت على بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا ہے۔
ایسا ہى معمول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا رہا ہے کہ وہ حضرات بکثرت اپنے قریبى رشتہ داروں میں نکاح کرتے رہے ہیں، ان سے موروثى بیمارى منتقل ہونے کى کوئى روایت منقول نہیں ہے، نیز فقہاء کرام میں سے کسى نے بھى قریبى رشتہ داروں سے نکاح نہ کرنے کى یہ وجہ بیان نہیں فرمائى کہ اس سے موروثى بیماریاں آئندہ نسل میں منتقل ہوتى ہیں۔
لہذا اگر اس بات کو بنیاد بنا کر قریبى رشتہ داروں سے نکاح کو ممنوع قرار دیا جائے، تو بہت سى قریبى رشتہ دار عورتیں بغیر نکاح کے رہ جائیں گی، اور اس سے ايک معاشرتى بحران پیدا ہوگا جبکہ ہمیں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔
اور حدیث مبارک میں صلہ رحمی کے لیے نکاح کرنے والے کے لیے برکت کی خوش خبری بیان کی گئی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جو شخص کسی عورت سے صلہ رحمی کی غرض سے نکاح کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس مرد کے لیے اس کی بیوی کو اور اس عورت کے لیے اس کے شوہر کو بابرکت بنا دیں گے"۔
(المعجم الأوسط للطبرانی: حدیث نمبر: 2342)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأحزاب، الایة: 50)
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا ....الخ
و قوله تعالی: (النساء، الایة: 23)
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًاo
صحيح البخاري: (كتاب الطب، باب الجذام، رقم الحديث: 5707، 126/7، ط: دار طوق النجاة)
وَقَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ.
و فیه ایضاً: (كتاب الطب، بَابُ لاَ صَفَرَ، وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ البَطْنَ، رقم الحديث: 5717، 128/7، ط: دار طوق النجاة)
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا عَدْوَى وَلا صَفَرَ وَلا هَامَةَ" فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ الله، فَمَا بَالُ إِبِلِي، تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الأَجْرَبُ، فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا؟ فَقَالَ: "فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ"؟ رواه الزهري عن أبي سلمة وسنان بن أبي سنان.
الإصابة في تمييز الصحابة: (رقم الحدیث: 11358، 417/13، ط: مرکز ھجر للبحوث)
"زينب بنت جحش الأسدية أم المؤمنين زوج النبي صلى الله عليه وسلم. تقدم نسبها في ترجمة أخيها عبد الله وأمها أمية عمة النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها النبي صلى الله عليه وسلم سنة ثلاث وقيل سنة خمس ونزلت بسببها آية الحجاب وكانت قبله عند مولاه زيد بن حارثة وفيها نزلت، فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها)".
المعجم الأوسط للطبراني: (رقم الحديث: 2342، 21/3، ط: دار الحرمين)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: نَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الحِمْصِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ القُدُّوسِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِعِزِّهَا لَمْ يَزِدْهُ اللهُ إِلَّا ذُلاًّ، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِمَالِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللهُ إِلَّا فَقْرًا، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحَسَبِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللهُ إِلَّا دَنَاءَةً، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا لِيَغُضَّ بَصَرَهُ أَوْ لِيُحْصِنَ فَرْجَهُ، أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ، بَارَكَ اللهُ لَهُ فِيهَا، وَبَارَكَ لَهَا فِيهِ».
وقال الطبراني: لم يرو هذا الحديث عن إبراهيم إلا عبد السلام.
وأورده الهيثمي في «المجمع» 4/ 467 (7324) كتاب النكاح/ باب نية الزواج، وقال: رواه الطبراني في الأوسط، وفيه: عبد السلام بن عبد القدوس بن حبيب، وهو ضعيف
والحديث أخرجه ابن الجوزي في «الموضوعات» 3/ 44 رقم الحديث: (1252) من طريق ابن حبان، عن محمد بن المعافى، عن عمرو بن عثمان، بهذا الإسناد، وقال: هذا حديث موضوع على رسول الله ﷺ، تفرد به عبد السلام، وهو ضد ما في الصحيحين: «تنكح المرأة لمالها ولحسنها ولجمالها ولدينها»، قال أبو حاتم بن حبان: عبد السلام يروي الموضوعات، لا يحل الاحتجاج به بحال. وقال النسائي: وعمرو بن عثمان متروك الحديث.
وقال ابن عراق في «تنزيه الشريعة» 2/ 206 رقم الحديث: (27) كتاب النكاح/ الفصل الثاني: تُعقِّب بأن عبد السلام روى له ابن ماجه، وقال أبو حاتم: ضعيف. وعمرو بن عثمان هو الحمصي كذا في رواية الطبراني، وليس له ذكر في «الميزان» ولا «اللسان»، وليس الحديث مخالفًا لما في الصحيح، فإنه ليس المراد به الأمر بذلك، بل الإخبار عما يفعله الناس، ولهذا قال في آخره: «فاظفر بذات الدين تربت يداك»، وله شاهد من حديث عبد الله بن عمرو، أخرجه عبد بن حميد من طريق عبد الرحمن بن زياد الأفريقي. قلتُ: هو في ابن ماجه، فعزوه إليه أولى، إذ هو من الأصول الستة، وعمرو بن عثمان الحمصي من رجال أبي داود والنسائي وابن ماجه ولم يجرح، فكيف يكون له ذكر في الميزان أو اللسان، والموصوف بأنه متروك هو عمرو بن عثمان الكلابي، قال فيه النسائي والأزدي ذلك على أنه من رجال ابن ماجه، وقال ابن عدي: له أحاديث صالحة، وهو ممن يكتب حديثه. وذكره ابن حبان في «الثقات», والله أعلم.
المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحديث: 206، 114/1)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ طَلْحَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «النَّاكِحُ فِي قَوْمِهِ كَالمُعْشِبِ فِي دَارِهِ».
والحديث أورده الهيثمي في «المجمع» 4/ 477 (7354) كتاب النكاح/ باب تزويج الأقارب، وقال: رواه الطبراني، وفيه: أيوب بن سليمان بن حذلم، ولم أجد من ذكره هو ولا أبوه، وبقية رجاله ثقات. وذكره السيوطي في «جمع الجوامع» 4/ 198، رقم الحديث: (12032) معزوًّا إلى الطبراني في «الكبير» وأبي نعيم في «المعرفة», وقال: فيه سليمان الطليحين، له مناكير.
وقال الذهبي في «الميزان» 3/ 281: سليمان بن أيوب الطلحي الكوفي، عاش إلى بعد المائتين، صاحب مناكير، وقد وُثِّق.
السراج المنير شرح الجامع الصغير: (358/4، ط: المطبعة الخيريرة، مصر)
"(الناكح في قومه) أي من أقاره وعشيرته (كالمعشب في داره) قال في النهاية والعشب الكلأ مادام رطبًا ولا يقال له حشيش حتى يهيج قال الشيخ وسببه أن رجلًا من الأنصار استثار ممن ينكح فذكره له ووجه الشبه وجود الرفق فقرب الكلأ يحصل به رفق وعدم مشقة والتزوج من العشيرة كذلك (طب) عن طلحة بن عبد الله".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی