سوال:
السلام علیکم، میری شادی کو 58 سال ہو گئے ہیں، میرے شوہر کا انتقال 19 اکتوبر 2007ء میں ہوگیا ہے، میرے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، سب بچے شادی شدہ ہیں، میری سب سے بڑی بیٹی کا انتقال 2018 میں ہو گیا ہے، اسکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
مسئلہ یہ ہیکہ میرے پاس ایک ہی گھر ہے، جو کہ میرے شوہر نے میرے نام سے لے رکھا ہے، اس گھر میں میں اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ رہتی ہوں، اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور زمین نہیں ہے، میری دو بیٹیاں 10 سال سے اس گھر میں سے اپنا وراثت کا حصہ مانگ رہی ہیں، کیا ان کا اس گھر میں وراثت کا حق بنتا ہے؟ اگر حق ہے تو سب بچوں میں وراثت کس طرح تقسیم کیا جائے گی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے ایک بیٹے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم چاروں بھائیوں کے جو بیٹے ہیں، ان کا بھی دادا کے اس مکان میں حصہ ہوگا،
جبکہ میرے چاروں بیٹے حیات ہیں، بس بڑی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے، جو کہ میں اوپر تفصیل کے ساتھ بیان کر چکی ہوں۔
براۓ مہربانی شرعی طور پر مجھے ان مسائل کا حل بتائیں۔
فقط والسلام
جواب: 1) اگر آپ کے شوہر نے صرف مکان آپ کے نام کیا تھا، اور مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا تھا، تو یہ مکان آپ کے شوہر کی ہی ملکیت شمار ہوگا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
اور اگر آپ کے شوہر نے آپ کو مالکانہ تصرف اور قبضہ بھی دیدیا تھا، تو یہ مکان آپ کی ملکیت شمار ہوگا، اور آپ اس مکان کا تنہا مالکہ ہونگی، اس صورت میں بیٹے اور بیٹیوں کا اس مکان میں کوئی حق نہیں ہوگا۔
2) واضح رہے کہ بیٹوں کے موجود ہوتے ہوئے پوتوں کا دادا کی میراث میں حصہ نہیں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب میراث ابن الابن، 151/8، ط: دار طوق النجاة)
"وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
الھندیۃ: (378/4، ط: رشیدیہ)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
الھندیۃ: (451/6، ط: دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار۔۔۔فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن....الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی