resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: سحری کے وقت اذان دینے سے متعلق حدیث شریف کی تشریح (9440-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا ایسی کوئی حدیث ہے، جس میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ (نام معلوم نہیں) ان کے بارے میں ہے کہ جب وہ اذان دیں، تو سحری کھانا شروع کردو، اور جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں، تو کھانا پینا چھوڑ دو! اس حدیث کے بارے میں کچھ تفصیل بتاکر مشکور فرمائیں۔

جواب: جی ہاں ! سوال میں ذکرکردہ روایت ’’صحیح‘‘ ہے،لہذا اس کو بیان کیاجاسکتا ہے، ذیل میں اس روایت کی تخریج ، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دے دیتے ہیں، لہذا تم لوگ کھاؤ پیو، یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے، جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔(بخاری،حدیث نمبر: 617)
تخریج الحدیث:
اس روایت کو امام بخاری ؒ (م256ھ)نے’’صحیح البخاری‘‘( 1/127رقم الحديث: 617،ط: دار طوق النجاة)میں ذکر کیا ہے
تشریح:
واضح رہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رمضان المبارک کی راتوں میں اذان دینے کے لیے دو موذن مقرر تھے، ایک حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اذان دیا کرتے تھے، جب سحری کا وقت شروع ہوتا تھا، حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق کے بعد اذان دیا کرتے تھے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کا مقصد یہ تھا کہ مسجد نبوی میں جو لوگ تہجد پڑھ رہے ہیں، وہ سحری کے لیے گھر لوٹ جائیں اور جو لوگ سورہے ہیں، وہ سحری کے لیے بیدار ہوجائیں، (۲)جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”کسی شخص کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے، اس لیے کہ وہ رات کو اذان کہہ دیتے ہیں، تاکہ تم میں سے تہجد پڑھنے والے (سحری کے لیے) گھر لوٹ جائیں اور جو لوگ سورہے ہیں، وہ سحری کے لیے بیدار ہوجائیں‘‘۔(۳)، لہذا جناب رسول اللہ ﷺ لوگوں کو تنبیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں، تو تم لوگ کھاؤ پیو، یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں“۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری :( 1/127،رقم الحديث: 617 ،ط: دار طوق النجاة)
، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم»، ثم قال: وكان رجلا أعمى، لا ينادي حتى يقال له: أصبحت أصبحت

عمدۃ القاری: (130/5، ط: دار إحياء التراث العربی)
وأما الجواب عن أذان بلال الذي كان يؤذن بالليل قبل دخول الوقت فلم يكن ذلك لأجل الصلاة، بل إنما كان ذلك لينتبه النائم وليتسحر الصائم، وليرجع الغائب، بين ذلك ما رواه البخاري من حديث ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لا يمنعن أحدكم أو واحدا منكم أذان بلال من سحوره، فإنه يؤذن أو ينادي بليل ليرجع غائبكم ولينتبه نائمك) ۔۔۔۔، وأخرجه مسلم أيضا. وأخرجه الطحاوي من ثلاث طرق، ولفظه: (لا يمنعن أحدكم أذان بلال من سحوره، فإنه ينادي أو يؤذن ليرجع غائبكم ولينتبه نائمكم) . الحديث، ومعنى: (ليرجع غائبكم) : ليرد غائبكم من الغيبة، ورجع يتعدى بنفسه ولا يتعدى، والرواية المشهورة: (ليرجع قائمكم) من: القيام، ومعناه: ليكمل ويستعجل بقية ورده، ويأتي بوتره قبل الفجر.

فیض الباری: (2/219، ط: دار الكتب العلمية)
فتبين منه أن أذان بلال إنما كان لأجل أن يرجع قائم الليل عن صلاته ويتسحر، ويستيقظ النائم فيتسحر، فهذا تصريح بكونه للتسحير لا للفجر. وأما للفجر، فكان ينادي به ابن أم مكتوم، ولذا كان ينتظر الفجر ويتوخاه.
کذا فی تحفة الالمعي: (1/523، ط: زمزم ببلشرز)

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 621، ط: دار طوق النجاة)
عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يمنعن أحدكم - أو أحدا منكم - أذان بلال من سحوره، فإنه يؤذن - أو ينادي بليل - ليرجع قائمكم، ولينبه نائمكم، وليس أن يقول الفجر - أو الصبح -» وقال بأصابعه ورفعها إلى فوق وطأطأ إلى أسفل حتى يقول هكذا وقال زهير: «بسبابتيه إحداهما فوق الأخرى، ثم مدها عن يمينه وشماله»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

sehri ke / kay waqt azan / azaan dene se mutaliq hadis / hadees sharif ki tashreeh, "بلالؓ رات میں اذان دے دیتے ہیں، لہذا تم لوگ کھاؤ پیو، یہاں تک کہ (عبداللہؓ) ابن ام مکتوم اذان دیں" حدیث شریف کی تشریح

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees