سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مسجد میں جانے کی بجائے کسی باغ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟
جواب: مردوں کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا ایسی سنتِ مؤکدہ ہے، جو حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، اور مسجد میں جماعت کا اہتمام واجبِ کفایہ ہے۔
ہاں! اگر کسی عذر کی وجہ سے یا کبھی اتفاقاً گھر یا کسی دوسری جگہ جماعت سے نماز ادا کر لی جائے، تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اسے مستقل معمول نہ بنایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (431/2، ط: دار إحیاء التراث العربی)
"وکل ما شرع بجماعة فالمسجد فیہ أفضل".
"وإن صلی أحد في البیت بالجماعة لم ینالوا فضل جماعة المسجد".
غنیة المستملي: (ص: 402، ط: المکتبة الأشرفیة)
"( وإن صلی ) أحد (في بیتہ بالجماعة ) حصل لھم ثوابھا وأدرکوا فضلھا، ولکن ( لم ینالوا فضل الجماعة) التي تکون ( فی المسجد) لزیادة فضیلة المسجد و تکثیر جماعتہ وإظھار شعائر الإسلام، (وھکذا فی المکتوبات) أي: الفرائض لو صلی جماعة فی البیت علی ھیئة الجماعة فی المسجد نالوا فضیلة الجماعة، وھی المضاعفة بسبع وعشرین درجة، لکن لم ینالوا فضیلة الجماعة الکائنة فی المسجد، فالحاصل أن کل ما شرع فیہ الجماعة فالمسجد فیہ أفضل لما اشتمل علیہ من شرف المکان وإظھار الشعائر وتکثیر سواد المسلمین وائتلاف قلوبھم۔ وینبغي أن یقید ھذا بما إذا تساوت الجماعتان فی استکمال السنن والآداب إلخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی