سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میری شادی گزشتہ برس ہوئی، شادی سے لے کر آج تک میری زوجہ سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوئی، ان کی اور میری عادت میں نمایاں فرق ہے، میری اہلیہ زبان کی بہت تیز اور بد تمیز ہے، جبکہ گھر کے کاموں سے بھی ان کو کوئی دلچسپی نہیں، پوری رات موبائل کا استعمال کرتی ہے، اور پوچھو تو جھگڑا کرتی ہے، مجھے دھمکیاں دیتی ہے کہ میں تمہیں اس زمین سے اوپر اٹھوادوں گی، اور تمہاری نسل کو بھی تباہ وبرباد کردوں گی، اب وہ گزشتہ مارچ 2022 سے اپنے والدین کے گھر بیٹھ گئی ہے، میرے بلانے پر بھی نہیں آئی، اس کی والدہ کا مطالبہ ہے کہ میرے گھر کے برابر میں گھر لیکر اس کو وہاں پر رکھو! میں یہ مطالبہ پورا نہیں کرسکتا، وہ اپنی میکے جاتے ہوئے میرے گھر اور الماری کی ساری چابیاں ساتھ لے گئی ہے، اور شادی میں دیا گیا قیمتی سامان بھی اپنے قبضہ میں رکھا ہے، مجھے موبائل پر ایک پیغام بھیج دیا کہ ہمیں اپنے راستے الگ کرلینا چاہیے، مجھے اس سلسلے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ شرعی طور پر ہم کس طریقہ سے اس رشتے کو ختم کرسکتے ہیں؟ مہربانی فرماکر رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر میاں بیوی میں واقعی نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، تو طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ عورت کو اس کی پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے، ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر اگر شوہر چاہے، تو رجوع کرلے، رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا، اور اگر رجوع نہ کرنا چاہے، تو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہو جائے گی، اس صورت میں وہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزر جانے کی صورت میں فریقین کی باہمی رضامندی سے نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں آپس میں دوبارہ نکاح بھی کیا جاسکتا ہے، البتہ ایسی صورت میں بھی آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 3401، 142/6، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیة)
أُخْبِرَ رَسُولُ ﷲِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اﷲِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ.
الھدایة:( 383/2، ط: مکتبة رحمانیة)
الطلاق علی ثلثۃ اوجہ حسن واحسن وبدعی، فالاحسن: ان یطلق الرجل امراتہ تطلیقۃ واحدۃ فی طھر لم یجامعہا فیہ ویترکہا حتی تنقضی عدتہا، لان الصحابۃ کانوا یستحبون ان لا یزیدوا فی الطلاق علی واحدۃ، حتی تنقضی العدۃ، وان ھذا افصل عندھم من ان یطلق الرجل ثلثا عند کل طھر واحدۃ، ولانہ ابعد من الندامۃ واقل ضرر بالمراۃ ولا خلاف لاحد فی الکراھۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی