resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: چار برتنوں کے استعمال سے آپ ﷺ نے منع فرمایا حدیث کی تحقیق و تشریح(9459-No)

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی کے تراشے ہوئے برتن سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس بات کو حفظ کرلو۔ (صحیح البخاری) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب: جی ہاں ! سوال میں ذکرکردہ حدیث صحیح ہے، اس کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
ترجمہ:عبدالقیس کا وفد جب نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے ان کو چار قسم کےبرتن استعمال کرنےسے منع فرمایا : سبز رنگ کے مٹکے سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور تارکول ملے ہوئے برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا، جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔
تخریج الحدیث:
سوال میں ذکر کردہ حدیث ایک طویل حدیث کا ایک حصہ ہے، جس کو امام بخاری ؒ(م256ھ)نے ’’صحیح البخاری‘‘(20/1 )،رقم الحديث: 53،ط:دارطوق النجاۃ) میں ذکر کیا ہے۔
تشریح:
اس حدیث مبارکہ میں چار قسم کے برتن کے استعمال سے منع کیا گیا ہے:
1۔ الحنتم: یہ سبز رنگ کے مٹکے کو کہتے ہیں۔
2۔ الدباء: یہ ایک قسم کا کدو ہے، جو خشک ہوتا ہے اور اس کے اندر سے کرید تخم کو پھینک دیا جاتا ہے، یہ اندر سے بہترین برتن ہے، اوپر سے پکڑنے کے لیے ایسی گردن ہے، گویا پکڑنے ہی کے اندازے پر تخلیق ہوئی ہے، اس کو تونبی بھی کہتے ہیں، اب بھی قبائل اور کوہستانی علاقوں میں لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں۔
3۔ النقير: یہ بھی ایک برتن ہے، جسے لوگ کھجور کے درخت کا تنا اندر سے تراش کر کھوکھلا کرکے بنایا کرتے تھے اور پھر اس میں شراب بناتے اور رکھتے تھے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ لکڑی یا کسی بھی درخت کی جڑ کو کھوکھلا کرکے جو برتن بناتے ہیں، اس کو ’’نقیر‘‘کہتے ہیں۔
4۔ المزفت: یہ وہ برتن ہے، جس پر لوگ مسامات بند کرنے کے لیے تارکول مل دیا کرتے تھے۔
ان چار قسم کے برتنوں کے استعمال کی ابتداء اسلام میں ممانعت تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مخصوص قسم کے برتن عربوں کے ہاں شراب بنانے اور شراب رکھنے کے کام میں آتے تھے، چونکہ شراب حرام ہوچکی تھی، اس لیے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا تھا، تاکہ اس سے شراب کی موجودگی یا شراب کے استعمال کا شبہ نہ ہو سکے، مگر جب بعد میں شراب کی حرمت مسلمانوں کے دلوں میں پختگی کے ساتھ بیٹھ گئی اور برتنوں کے بارے میں یہ احتمال نہ رہا کہ یہ برتن خاص طور پر شراب ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں، تو ان کا استعمال مباح قرار دیا گیا، لہٰذا اب یہ حکم منسوخ مانا جائے گا، جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہیں برتنوں سے منع کیا تھا، درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ تو حلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے“۔ اور خود جناب رسول اللہ ﷺ کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا، اس سے آپﷺ پانی بھی پیتے تھے اور وضو بھی فرماتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱) صحیح البخاري: (20/1 )،( 53)،ط:دارطوق النجاۃ)
عن أبي جمرة، قال: كنت أقعد مع ابن عباس يجلسني على سريره ۔۔۔، ثم قال: إن وفد عبد القيس لما أتوا النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔۔ونهاهم عن أربع: عن الحنتم والدباء والنقير والمزفت "، وربما قال: «المقير» وقال: «احفظوهن وأخبروا بهن من وراءكم

(۲)فتح الباري لابن حجر العسقلاني: (1/135، ط: دار المعرفة)
والحنتم بفتح المهملة وسكون النون وفتح المثناة من فوق هي الجرة كذا فسرها بن عمر في صحيح مسلم وله عن أبي هريرة الحنتم الجرار الخضر وروى الحربي في الغريب عن عطاء أنها جرار كانت تعمل من طين وشعر ودم والدباء بضم المهملة وتشديد الموحدة والمد هو القرع قال النووي والمراد اليابس منه وحكى القزاز فيه القصر والنقير بفتح النون وكسر القاف أصل النخلة ينقر فيتخذ منه وعاء والمزفت بالزاي والفاء ما طلى بالزفت والمقير بالقاف والياء الأخير ما طلي بالقار ويقال له القير وهو نبت يحرق إذا يبس تطلى به السفن وغيرها كما تطلى بالزفت قاله صاحب المحكم وفي مسند أبي داود الطيالسي عن أبي بكرة قال أما الدباء فإن أهل الطائف كانوا يأخذون القرع فيخرطون فيه العنب ثم يدفنونه حتى يهدر ثم يموت وأما النقير فإن أهل اليمامة كانوا ينقرون أصل النخلة ثم ينبذون الرطب والبسر ثم يدعونه حتى يهدر ثم يموت وأما الحنتم فجرار كانت تحمل إلينا فيها الخمر وأما المزفت فهذه الأوعية التي فيها الزفت انتهى وإسناده حسن وتفسير الصحابي أولى أن يعتمد عليه من غيره لأنه أعلم بالمراد ومعنى النهي عن الانتباذ في هذه الأوعية بخصوصها لأنه يسرع فيها الإسكار فربما شرب منها من لا يشعر بذلك ثم ثبتت الرخصة في الانتباذ في كل وعاء مع النهي عن شرب كل مسكر.

(۳)مرقاة المفاتيح: (1/162، ط: دار الكتب العلمية)
والمراد بالنهي ليس استعمالها مطلقا، بل النقيع فيها والشرب منها ما يسكر، وإضافة الحكم إليها خصوصا إما لاعتيادهم استعمالها في المسكرات، أو لأنها أوعية تسرع بالاشتداد فيما يستنقع؛ لأنها غليظة لا يترشح منها الماء ولا ينفذ فيه الهواء، فلعلها تغير النقيع في زمان قليل، ويتناوله صاحبه على غفلة بخلاف السقاء فإن التغير فيه يحدث على مهل، والدليل على ذلك ما روي أنه قال: ( «نهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الأسقية كلها، ولا تشربوا مسكرا» ) . وقيل: هذه الظروف كانت مختصة بالخمر، فلما حرمت الخمر حرم النبي - صلى الله عليه وسلم - استعمال هذه الظروف، إما لأن في استعمالها تشبيها بشرب الخمر، وإما لأن هذه الظروف كانت فيها أثر الخمر، فلما مضت مدة أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - استعمال هذه الظروف، فإن أثر الخمر زال عنها، وأيضا في ابتداء تحريم شيء يبالغ ويشدد ليتركه الناس مرة، فإذا تركه الناس واستقر الأمر يزول التشديد بعد حصول المقصود، هذا وذهب مالك وأحمد إلى أن تحريم الانتباذ في هذه الظروف باق لم ينسخ؛ لأن ابن عباس استفتي عن الانتباذ فذكره، فلو نسخ لم يذكره، ويرد بأنه لم يبلغه النسخ، فلا يكون إيراده له حجة على من بلغه.

(۴) سنن الترمذي:( 4/295)( 1869)، ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
عن سليمان بن بريدة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني كنت نهيتكم عن الظروف، وإن ظرفا لا يحل شيئا ولا يحرمه، وكل مسكر حرام»: هذا حديث حسن صحيح.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

kia aap sallalaho alihe wasallam ne / nay lakri / wood k / kay tarashe / tarashay huwe burtano k / kay istemal se / say mana farmaya he / hae?, کیا آپ ﷺ نے لکڑی کے تراشے ہوئے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے؟

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees