سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے چند سوالات ہیں، براہ کرم شریعت کی روشنی میں ان کا جواب عنایت فرمادیں۔
1: اگر شوہر کا انتقال ہوجائے، تو نکاح ختم ہوجاتا ہے یا نہیں؟
2: شوہر کے انتقال کے بعد بیوی اگر اپنے مرحوم شوہر کی بخشش کیلئے قرآن پاک پڑھے یا کچھ اور نیک اعمال کرے، تو وہ شوہر تک پہنچے گا یا نہیں؟
3: اولاد کے علاوہ کوئی اور شخص متعدد قرآن پڑھ کر بخشواسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: 1) شوہر کے انتقال کے وقت سے عدت وفات پوری ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے، اسی وجہ سے عورت اپنے شوہر کو غسل وکفن دے سکتی ہے اور عورت کے انتقال پر شوہر اجنبی ہوجاتا ہے۔
2,3) تمام نفلی عبادات خواہ وہ بدنی ہوں مثلاً: نماز، روزہ، تلاوت قرآن کریم وغیرہ یا مالی مثلاً: صدقہ وخیرات وغیرہ ان کا ایصال ثواب زندہ و مرحومین دونوں کو کیا جا سکتا ہے، چاہے عمل کے شروع میں ہی ایصالِ ثواب کی نیت کرلے یا عمل کرنے کے بعد نیت کرلے، بہر صورت ایصال ثواب کرنا درست ہے، لہذا عورت اپنے مرحوم شوہر کے لیے، اولاد اپنے والد کے لیے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایصالِ ثواب کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب صلاة الجنازة، 91/3، ط: زکریا)
"والنکاح بعد الموت باقٍ إلی أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت فلا یغسلہا؛ لانتہاء ملک النکاح لعدم المحل فصار أجنبیًا".
الدر المختار: (باب صلاة الجنازة، 91/3، ط: زکریا)
"ویمنع زوجھا من غسلھا ومسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح وھي لا تمنع من ذلک أي من تغسیل زوجھا دخل بھا أو لا․ ولو ذمیةً بشرط بقاء الزوجیة".
الدر المختار مع رد المحتار: (595/2، ط: دار الفکر)
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة.
(قوله بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام -۔۔۔۔الخ
(قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع. قلت: وشمل إطلاق الغير النبي - صلى الله عليه وسلم - ولم أر من صرح بذلك من أئمتنا، وفيه نزاع طويل لغيرهم".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی