عنوان: خاتون کا زندگی میں دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے اور پوتوں کے نام گھر کرنا (9504-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک عورت ہے، جس نے اپنی جمع پونجی سے آج سے کئی سال پہلے ایک مکان خریدا، اس عورت کے دو بیٹے ہیں، (جمیل اورعقیل) جمیل کی ایک بیوی ہے، جبکہ عقیل کی دو بیویاں ہیں، عورت کہتی ہے کہ میں اپنا یہ مکان آدھا جمیل کے نام کردوں گی اور آدھا مکان عقیل کے بیٹوں کے نام کردوں گی، لیکن اپنے بیٹے عقیل کے نام پر نہیں کروں گی، عورت کہتی ہے کہ مجھے یہ خدشہ ہے کہ عقیل اپنا یہ حصہ اپنی دوسری بیوی کے نام کر دے گا، اور میرے پوتوں کو اس میں سے حصہ نہیں دے گا، شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے، مزید یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ اس صورت میں پوتیوں کو حصہ ملے گا یا نہیں؟ دادی پوتوں کے نام کرنا چاہ رہی ہے لیکن پوتیوں کے نام نہیں، کیونکہ پوتیاں تمام شادی شدہ ہیں، تسلی بخش جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً

جواب: اپنی زندگی میں گھر تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ خاتون پہلے اپنے لیے اپنے گھر کی قیمت میں سے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز ان پر کسی کا قرض ہو، تو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنے دونوں بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کردیں۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر کسی مناسب وجہ، اندیشہ یا خوف (مثلا: مال کو ضائع کرنے یا حرام مصرف میں خرچ کرنے وغیرہ) کی وجہ سے دوسرے بیٹے کو دینے کے بجائے پوتوں کے نام کرنا چاہیں، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ (گفٹ) ہے، اس لیے اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں، تو اس کو مالک و قابض بناکر دینا لازم ہے، اس صورت میں خاتون کے انتقال کے بعد یہ گھر ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو اپنی زندگی میں جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا تھا، وہی اس کا مالک ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 3019، ط: المكتب الإسلامي)
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» .... وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور» (مُتَّفق عَلَيْهِ)

مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ....قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».

تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لہذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد....

رد المحتار: (کتاب الفرائض، 769/6، ط: سعید)
أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث.

اللباب في شرح الكتاب: (217/2، ط: المكتبة العلمية)
ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث.

بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیة)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم [الخ]....وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ....وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.


الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

البحر الرائق: (288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.

الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 434 May 24, 2022
khatoon / orat ka zindagi me / mein doo / two beto / son's me / mein se / say aik bete / son or poto / poton k / kay naam ghar karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.