عنوان: "ایمان" اور "تقوى" میں فرق اور تقویٰ کے درجات (9505-No)

سوال: کیا ایمان اور تقوی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟ اگر فرق ہے تو بتادیں۔

جواب: واضح رہے کہ ایمان اور تقوى اپنے مقاصد کے اعتبار سے ایک ہى ہیں، دونوں کا مقصد اللہ تعالى کى رضا کا حصول اور آخرت کے عذاب سے بچنا ہے، اس اعتبار سے ان میں کوئى فرق نہیں ہے، البتہ ایمان اور تقوى میں ان کے مفہوم کے اعتبار سے عام اور خاص کا فرق ہے، تقوى کا مفہوم وسیع اور عام ہے، جبکہ ایمان کا مفہوم خاص ہے۔
تقوى کالغوى معنى ہے: ڈرنا اور اپنے آپ کو تکلیف دینے والی چیز سے بچانا۔
شریعت کی اصطلاح میں "تقوى" اللہ تعالى کے ایسے ڈر اور خوف کو کہا جاتا ہے، جس کى وجہ سے انسان اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے بچاتا ہے، جو اس کے لیے آخرت کے اعتبار سے ضرر رساں ہوں، خواہ ان چیزوں کا تعلق عقائد اور اخلاق کے ساتھ ہو یا انسان کے اقوال، افعال اور احوال کے ساتھ ہو، چونکہ آخرت کے ضرر کے درجات مختلف ہیں، مثلا: آخرت کا سب سے بڑا ضرر یہ ہے کہ کفر وشرک کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں داخل ہونا (معاذ اللہ)، اس سے کم درجے کا ضرر یہ ہے کہ مختلف گناہوں کى سزا کے طور پر ایک عرصہ تک جہنم میں جانا وغیرہ، جب اخروى ضرر کے درجات مختلف ہیں تو ان سے بچنے (تقوى) کے درجات بھى مختلف ہیں، مفسرین کرامؒ نے تقوى کے تین درجات بیان فرمائے:
تقوى کا پہلا درجہ:
کفر وشرک سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہونا اور اپنے آپ کو آخرت کے سب سے بڑے ضرر (دائمى عذاب) سے بچانا، اس اعتبار سے "ایمان" تقوى کا اولین درجہ ہے، اس کے بغیر آخرت میں نجات ہی ممکن نہیں ہے۔
قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر "تقوى" سے یہى مفہوم مراد لیا گیا ہے، سورۃ الفتح آیت نمبر: 26 میں "وألزمهم كلمة التقوى". (ترجمہ: ان كو الله تعالى نے تقوى کى بات پر جمائے رکھا) اس سے مراد یہى تقوى (ایمان) ہے۔
تقوى کا دوسرا درجہ:
ایمان لانے کے بعد تمام فرائض اور واجبات کی پابندی کرنا اور اپنے آپ کو ظاہرى وباطنی تمام کبیرہ گناہوں سے بچانا، شریعت کی اصطلاح میں "تقوى" سے عام طور پر یہى مفہوم مراد لیا جاتا ہے، قرآن کریم میں ایمان والوں سے بہت سے مقامات پر اسى تقوى کا مطالبہ فرمایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين". (سورة التوبة:آيت نمبر: 119) (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو)۔
تقوى کا تیسرا درجہ:
ایمان والے کا اپنے دل کو ہر ایسى چیز سے محفوظ کر لینا جو اسے اللہ تعالى کى یاد سے غافل کر دے، قرآن کریم میں ایمان والوں سے اس تقوى کا یوں مطالبہ فرمایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ". (سورۃ آل عمران: آیت نمبر: 102)(ترجمہ: اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو)۔
خلاصہ یہ ہے کہ تقوى کا مفہوم عام ہے اور ایمان کا مفہوم خاص ہے، ایمان تقوى کا پہلا درجہ ہے کہ کفر وشرک کے گناہ سے اپنے آپ کو بچانا، تقوى کا دوسرا درجہ اعمال صالحہ کى پابندى اور تمام گناہوں سے اجتناب اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالى کى یاد سے غافل نہ ہونا، جیسے جیسے نیک اعمال میں اضافہ اور گناہوں سے اجتناب بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے تقوى میں اضافہ ہو کر "ایمانِ کامل" ہوتا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تفسير البيضاوي: (سورۃ البقرۃ/ الآية: 2، 1/ 36، ط: دار إحیاء التراث العربی)
"والمتقي اسم فاعل من قولهم وقاه فاتقى. والوقاية: فرط الصيانة. وهو في عرف الشرع اسم لمن يقي نفسه مما يضره في الآخرة، وله ثلاث مراتب: الأولى: التوقي من العذاب المخلد بالتبري من الشرك وعليه قوله تعالى: وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوى.
الثانية: التجنب عن كل ما يؤثم من فعل أو ترك حتى الصغائر عند قوم وهو المتعارف باسم التقوى في الشرع، وهو المعني بقوله تعالى: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَاتَّقَوْا. الثالثة: أن يتنزه عما يشغل سره عن الحق ويتبتل إليه بشراشره وهو التقوى الحقيقي المطلوب بقوله تعالى: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وقد فسر قوله: هُدىً لِلْمُتَّقِينَ هاهنا على الأوجه الثلاثة".

(ومستفاد از تفسیر معارف القرآن للکاندھلوى: جلد 1 ص 45، طبع: مکتبۃ المعارف، دارالعلوم حسینیہ، شہداد پور سندھ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1127 May 24, 2022
eman or taqwa me / mein farq?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.