سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مجھے اپنے بھائی کے بارے میں سوال پوچھنا ہے، ان کی شادی کو 22 سال ہو چکے ہیں، ایک مہینہ پہلے ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ بھائی نے دوسری شادی کر رکھی ہے، اور اس سے اسکا 6 ماہ کا بیٹا ہے، ان کی پہلی بیوی اس خبر کے بعد اپنے میکہ چلی گئی ہیں، اور ان کا مطالبہ ہے کہ دوسری عورت کو طلاق دو گے تو پھر ہی میں واپس آؤں گی، دوسری بیوی بھی ان کی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، بیٹے کی وجہ سے بھائی اس کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے، اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیے کہ کیا بھابھی کا یہ مطالبہ درست ہے، دوسری عورت سے متعلق بھی رہنمائی فرمائیے۔
جواب: پہلی بیوی اور اس کے رشتہ داروں کا دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ" کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بہن (پہلی یا دوسری بیوی) کی طلاق کا سوال کرے، تاکہ اس کا برتن خالی کرے، (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) بے شک اس کے لیے وہی ہے، جو اس کے مقدر میں ہے۔"
اور اگر کوئی فرقہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتا ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتا ہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا اس کے علاوہ کوئی کفریہ عقیدہ رکھتا ہو، تو ایسا فرقہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے فرقہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہے۔
لہذا اگر وہ لڑکی مذکورہ بالا عقائد یا دیگر کفریہ عقائد میں سے کوئی عقیدہ رکھتی ہو، تو اس سے سنی کا نکاح جائز نہیں ہے اور ایسی عورت سے جدائی اختیار کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 2176، ط: المكتبة العصرية)
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسال المراة طلاق اختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها".
رد المحتار: (46/3، ط: دار الفکر)
وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة فإنه مبتدع لا كافر.
الهندية: (264/2، ط: دار الفکر)
الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر، وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع والمعتزلي مبتدع إلا إذا قال باستحالة الرؤية، فحينئذ هو كافر كذا في الخلاصة.
ولو قذف عائشة - رضي الله تعالى عنها - بالزنا كفر بالله، ولو قذف سائر نسوة النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يكفر ويستحق اللعنة، ولو قال عمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - لم يكونوا أصحابا لا يكفر ويستحق اللعنة كذا في خزانة الفقه
من أنكر إمامة أبي بكر الصديق - رضي الله عنه -، فهو كافر، وعلى قول بعضهم هو مبتدع وليس بكافر والصحيح أنه كافر، وكذلك من أنكر خلافة عمر - رضي الله عنه - في أصح الأقوال كذا في الظهيرية.
ويجب إكفارهم بإكفار عثمان وعلي وطلحة وزبير وعائشة - رضي الله تعالى عنهم - ويجب إكفار الزيدية كلهم في قولهم انتظار نبي من العجم ينسخ دين نبينا وسيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم - كذا في الوجيز للكردري.
ويجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الأموات إلى الدنيا، وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإله إلى الأئمة وبقولهم في خروج إمام باطن وبتعطيلهم الأمر والنهي إلى أن يخرج الإمام الباطن وبقولهم إن جبريل - عليه السلام - غلط في الوحي إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - دون علي بن أبي طالب - رضي الله عنه -، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحكامهم أحكام المرتدين كذا في الظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی