resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: فتنوں سے متعلق آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى ہدایات، اس حدیث کى تحقیق (9526-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! درج ذیل حدیث کی تصدیق فرمادیں: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا ۔ آپ نے فرمایا :’’ جب تم دیکھو کہ لوگ اپنے عہد و مواعید میں بے وفائی کرنے لگے ہیں ، امانتوں کا معاملہ انتہائی خفیف اور ضعیف ہو گیا ہے ( لوگ خائن بن گئے ہیں ) اور ان کی آپس کی حالت اس طرح ہو گئی ہے ۔‘‘ اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر ڈال کر دکھایا ( اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں ) عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اٹھ کر آپ کے قریب ہو گیا اور عرض کیا : اللہ مجھے آپ پر فدا ہونے والا بنائے ! میں ان حالات میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا :’’ اپنے گھر کو لازم پکڑنا ، اپنی زبان کا مالک بن جانا ( خاموش رہنا ) اور نیکی پر عمل کرنا اور برائی سے بچنا اور اپنی ذات کی فکر کرنا اور عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

جواب: دریافت کردہ روایت کو امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنى مشہور کتاب "سنن أبی داود" میں ذکر فرمایا ہے، روایت کے ناقلین ثقہ ومعتبر ہونے کی وجہ سے روایت کو (صحیح مفہوم ومصداق سمجھنے کے بعد) آگے نقل کرنا درست ہے، چنانچہ حاکم کی تصحیح کے بعد روایت پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا ہے، اس کے علاوہ حافظ منذری اور عراقی رحمہما اللہ دونوں نے بھی روایت کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے۔ روایت کا ترجمہ تو سائل نے ذکر کردیا ہے، دوبارہ ذکر کرنے کی حاجت نہیں، تاہم اس روایت کے ذریعہ عوام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کا شبہ پیدا کیا جاتا ہے، چنانچہ ذیل میں اس حوالہ سے چند باتیں ملاحظہ ہوں:
مذکورہ بالا حدیث کے حوالے سے ضروری ہدایات:
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک طبقہ کی جانب سے مایوسی کی فضا عام کی جارہی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو محض اپنی فکر میں لگاکر دوسروں میں بے دینی کا رواج عام کرنا معلوم ہوتا ہے، سو اپنے اس نظریہ کو مضبوط کرنے کی غرض سے مندرجہ بالا حدیث اور ایک آیت قرآنی سے استدلال کیا جاتا ہے، اور دونوں کے مضامین کو خلط کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لہذا حدیث بالا اور آیتِ قرآنی کی سلف صالحین سے منقول مختصر تشریح وتفسیر درج ذیل ہے:
حدیث بالا کا درست موقع ومحل:
یہ بات درست ہے کہ موجودہ زمانے میں متعدد فتنوں کا ظہور ہوچکا ہے، ہر طرف انسان خود پسندی کے مرض کا شکار ہے، تاہم اگر ہم حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس آخری زمانے میں بھی خیر کی شکلیں، دینی شعور ، دین کی بات سننے کا جذبہ، مساجد ومدارس کا قیام ، تبلیغی جماعت اور خانقاہی محنت و تربیت وغیرہ الحمدللہ جاری وساری ہیں، لہذا اب تک ایمانی کیفیات باقی ہیں، امت میں اگرچہ خیر مغلوب ہے، شر کی جانب رجحان زیادہ دیکھا جارہا ہے،تاہم اس سب کے باوجود خیر کی بات کرنے ، سننے اور اس پر عمل کرنے والے اب تک باقی ہیں۔
الغرض ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ جب لوگوں کو چھوڑ کر انسان اپنی اصلاح پر اکتفاء کرے، بلکہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ذکر کردہ تحریکات سے وابستگی اختیار کرکے پہلے کے مقابلہ میں اپنی، اہل وعیال اور دیگر مسلمانوں کے حوالہ سے محنت وفکر کی مزید ضرورت ہے۔
جب ایسا وقت آجائے کہ جس میں لوگوں کی حالت میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوجائے کہ ان میں دین کی بات قبول کرنے کا جذبہ ختم ہوجائے، جس کے بعد داعی کی بات نہ سنیں اور نہ مانیں ،اس حد تک کہ ان سے مایوسی ہوجائے، اور اس قسم کا عمومی ماحول بن جائے۔یہ آخری دور میں ہوگا، جبکہ فتنے بالکل عام ہوجائیں گے۔ اس وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے چھوڑنے ، اور اپنی اصلاح وفکر میں منہمک ہونےکا حکم ہے۔لیکن جب تک وہ عمومی ماحول اور آخری زمانہ نہیں آتا تب تک اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھ ساتھ، لوگوں کو نیکی کی ترغیب اور برائی سے منع کرتے رہنا اس امت کے شایانِ شان ہے ۔
آیت قرآنی کی تفسیر :
حدیث بالا کا درست موقع ومحل تو اوپر ذکر ہوا، تاہم قرآن مجید کی آیت اور مختصر تفسیر جو سلف صالحین سے منقو ل ہے، مندرجہ ذیل ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾
ترجمہ:
اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تفسیر:
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی صورت میں اپنے استاد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے کہ اس دوران دو لوگوں کا آپس میں جھگڑا ہونے لگا، شریکِ مجلس ایک شخص نے کہا کہ میں کیوں نا انہیں اچھے کام کا حکم دوں، اور برے کام سے روکوں؟ تو اس کے برابر میں موجود دوسرے شخص نے کہا کہ تم بس اپنی فکر کرو، چونکہ خدا تعالی نے خود فرمایا کہ " دوسروں کی گمراہی تمہارے ہدایت پر ہونے کی صورت میں کوئی نقصان نہ دے گی"۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس شخص کی گفتگو سنی تو فرمایا کہ ٹھہرو، ابھی تو اس آیت کے مفہوم پر عمل کا وقت ابھی نہیں آیا ہے، قرآن مجید کا نزول ہوا، ان میں بعض آیات کی تفسیر تو ان آیات کے نزول سے قبل ہی پوری ہوگئی تھیں، بعض نبیﷺ کے زمانے میں، بعض آپ کے وصال کے بعد، بعض کی تفسیر اب موجودہ دور میں پوری ہورہی ہیں، (اس کے علاوہ) بعض آیات کی تفسیر روزِقیامت اور بعض کی تفسیر حساب کے دن پوری ہوگی۔ سو جب تک تمہارے دل متحد ہوں، خواہش منشتر نہ ہوں، مختلف جماعتوں میں الجھے ہوئے نہ ہوں، ایک دوسرے سے خانہ جنگی کے (عادی) مجرم نہ ہوں، اس موقع تک اچھے کام کا حکم دو، اور برے کام سے روکتے رہو۔ سو جب تمہارے دلوں اور خواہشات میں اختلافات رونما ہوں، مختلف جماعتوں میں الجھ پڑوں، اور ایک دوسرے سے خانہ جنگی شروع کر بیٹھوں تو ایسے عمومی صورتحال میں اپنے آپ کو نیکی کی دعوت دو(دوسرے کی فکر کے پیچھے مت پڑو)، سو اس وقت آیت کی تفسیر پوری ہوگی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جانب سے ذکر کردہ تفسیر:
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے فرمان :"عليكم أنفسكم" سے دھوکہ مت کھاؤ، اس کو پڑھنے کے بعد انسان کہتا ہے کہ مجھ پر بس میری فکر لازم ہے(دوسرے کی فکر واصلاح کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں)۔ بخدا ، تم (ایسا غلط مفہوم مت اختیا کرو، بلکہ) ضرور بضرور نیکی کا حکم کرو، اور برائی سے روکو، یہاں تک کہ (ایسا دور بھی آنے والا ہے کہ) جب تم پر بدترین لوگ حکمران مسلط ہونگے تو وہ سخت سزائیں دیں گے، پھر تمہارے نیکوکار بھی دعا کریں تو ان کی دعا بھی بے اثر ہوگی۔
علامہ بغوی رحمہ اللہ کی تشریح:
ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ لوگ اس آیت کی غلط تفسیر کرکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے کا عذر پیش کریں گے، سو انہوں نے بروقت مطلع کردیا کہ یہ تفسیر قطعا درست نہیں ہے،چنانچہ جس منکر میں تبدیلی کے حوالہ سے رکنے کی(آیت کریمہ سے) اجازت معلوم ہوتی ہے، اس سے مراد اہل ذمہ افراد کا شرک ہے، جس پر مصالحت اور جزیہ لازم ہونے کی وجہ سے نرم گوشہ اختیار کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی مسلمان شخص فسق وفجور کا مرتکب ہو،سو وہ اس آیت میں داخل ہی نہیں ہے(سو اس کو نیک کاموں کا حکم کیا جائے گا اور برائی سے روکا جائے گا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
سنن أبي داؤد، لسلیمان بن أشعث السجستاني، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 124/4، رقم الحدیث:4343، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص-رضي الله عنه-، قال: بينما نحن حول رسول الله ﷺ، إذ ذكر الفتنة، فقال: «إذا رأيتم الناس قد مرجت عهودهم، وخفت أماناتهم، وكانوا هكذا» وشبّك بين أصابعه، قال: فقمت إليه، فقلت: كيف أفعل عند ذلك، جعلني الله فداك؟ قال: «الزم بيتك، واملك عليك لسانك، وخذ بما تعرف، ودع ما تنكر، وعليك بأمر خاصة نفسك، ودع عنك أمر العامة»

تفسیر الطبری، لأبي جعفر محمد بن جریر الطبري، 143/11، المحقق: أحمد محمد شاكر، الناشر: مؤسسة الرسالة:
عن أبي العالیة۔۔۔۔ كانوا عند عبد الله بن مسعود-رضي الله عنه- جلوسًا، فكان بين رجلين ما يكون بين الناس، حتى قام كل واحد منهما إلى صاحبه، فقال رجل من جلساء عبد الله: ألا أقوم فآمرُهما بالمعروف وأنهاهما عن المنكر؟ فقال آخر إلى جنبه: عليك بنفسك، فإن الله تعالى يقول:{عليكم أنفسكم لا يضركم من ضلّ إذا اهتديتم}! قال: فسمعها ابن مسعود- رضي الله عنه- فقال:"مَهْ، لَمَّا يجئ تأويل هذه بعد! إن القرآن أنزل حيث أنزل، ومنه آيٌ قد مضى تأويلهن قبل أن ينزلن، ومنه ما وقع تأويلهن على عهد النبي ﷺ، ومنه آيٌ وَقع تأويلهن بعد النبيّ ﷺ بيسير، ومنه آي يقع تأويلهن بعد اليوم، ومنه آي يقع تأويلهنّ عند الساعة على ما ذكر من الساعة، ومنه آي يقع تأويلهن يوم الحساب على ما ذكر من الحساب والجنة والنار۔ فما دامت قلوبكم واحدة، وأهواؤكم واحدة، ولم تُلبَسوا شيعًا، ولم يَذُق بعضكم بأس بعض، فأمروا وانهوا. فإذا اختلفت القلوب والأهواء، وأُلبستم شيعًا، وذاق بعضكم بأس بعض، فأ مروا نفسه، فعند ذلك جاء تأويل هذه الآية"۔

تفسیر الطبری، لأبي جعفر محمد بن جریر الطبري، 149/11، المحقق: أحمد محمد شاكر، الناشر: مؤسسة الرسالة:
قال أبو بكر بن أبي قحافة-رضي الله عنه-: "يا أيها الناس لا تغترُّوا بقول الله:{عليكم أنفسكم}، فيقول أحدكم: عليَّ نفسي، والله لتأمرن بالمعروف وتنهوُنَّ عن المنكر، أو ليَستعملن عليكم شراركم، فليسومنّكم سوء العذاب، ثم ليدعون الله خياركم، فلا يستجيب لهم".

تفسیر البغوي، محيي السنة أبو محمد الحسین البغوي، 109/3، المحقق: حققه وخرج أحاديثه محمد عبد الله النمر - عثمان جمعة ضميرية - سليمان مسلم الحرش، الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع:
قال أبو عبيد: خاف الصديق-رضي الله عنه- أن يتأول الناس الآية على غير متأولها، فيدعوهم إلى ترك الأمر بالمعروف [والنهي عن المنكر]، فأعلمهم أنها ليست كذلك۔ وأن الذي أذن في الإمساك عن تغييره من المنكر، هو الشرك الذي ينطق به المعاهدون ؛ من أجل أنهم يتدينون به، وقد صولحوا عليه۔ فأما الفسوق والعصيان والريب من أهل الإسلام، فلا يدخل فيه.

شرح النووي علی صحیح مسلم، باب بیان کون النهي عن المنکر من الإیمان، 22/2،الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت:
وأما قول الله عز وجل: {عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم}، فليس مخالفا لما ذكرناه؛ لأن المذهب الصحيح عند المحققين في معنى الآية: أنكم إذا فعلتم ما كلفتم به فلا يضركم تقصير غيركم، مثل قوله تعالى {ولا تزر وازرة وزر أخرى}، وإذا كان كذلك، فمما كلف به الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، فإذا فعله ولم يمتثل المخاطب فلا عتب بعد ذلك على الفاعل؛ لكونه أدى ما عليه، فإنما عليه الأمر والنهي لا القبول۔ والله أعلم۔

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچى

fitno se / say mutaliq anhazrat / aap / huzor sallalahu alihe wasalam ki hidayat,is hadees ki tehqeeq, آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرما:جب تم دیکھو کہ لوگ اپنے وعدوں کى خلاف ورزى کرنے لگے ہیں۔۔۔الخ حدیث کى تحقیق و تشریح

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees