عنوان: بیوی کی خود کشی کی دھمکی کی وجہ سے دباؤ میں آکر تحریری طلاق دینے کا حکم(9529-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میں یہ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی ہے، مجھ سے زور زبردستی طلاق دینے کیلئے بہت دباؤ ڈالا گیا ہے، بیوی نے مجھے دھمکی دی کہ میں اپنا ہاتھ کاٹ لونگی، او کورٹ چلی گئی، تو خاندان کی عزت خاک میں مِل جائیگی، لہذا تم طلاق دے دو، بچوں نے کہا کہ ابو آپ امی کی بات مان لو، ورنہ ہم بھی آپ سے بات نہیں کرینگے، اور میرے دل میں کبھی بھی نہیں تھا کہ میں طلاق دونگا، جب میں طلاق کا ایگریمنٹ لے کر گھر میں داخل ہوا، اس وقت اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا کہ یا اللہ میں طلاق نہیں دینا چاہتا، اور نہ ہی دے رہا ہوں، یہ لوگ مجھ پر دباؤ ڈال کر ایگریمنٹ پر دستخط کروا رہے ہیں، میں نے ان سب لوگوں کے دباؤ میں آکر ایگریمنٹ پر دستخط کئے ہیں، لیکن اصل دستخط سے کچھ مختلف دستخط کیے ہیں، اور میں نے زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ہے، یہ واقع ہونے کے بعد بچے گھر چھوڑ کر جارہے تھے، لیکن میں نے کہا کہ آپ لوگ اسی گھر میں رہیں، میں کرایہ پر رہ لونگا، آپ لوگ گھر میں آرام سے رہو، یہ بات سن کر بچوں نے مجھے دعا دی کہ پاپا آپ نے ہمیں گھر دیا، ہم اور امی ساری زندگی آپ کو دعائیں دیں گے۔
تنقیح:
محترم آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ طلاق کے لیے دباؤ ڈالنے کی کیا نوعیت تھی؟ کیا آپ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی؟ یا کیا نوعیت تھی؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب تنقیح: مجھے میری اہلیہ نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر تم مجھے طلاق نہیں دوگے تو میں خود کشی کرلوں گی۔ اسی طرح اپنے بچوں اور اہلیہ کے خاندان کی طرف سے بھی بار بار کہنے کی وجہ سے میں کافی پریشان تھا، البتہ ایک مرتبہ مجھے میری بڑی بیٹی (جس کی عمر بیس سال ہے) نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی، جس کی ڈر سے میں رات کو اپنی والدہ کے گھر چلا گیا۔
2) طلاق نامہ میں کتنی طلاقیں مذکور ہیں؟
جواب: تین طلاقیں۔
تنقیح:
محترم آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آپ کی اہلیہ نے آپ کو طلاق پر مجبور کرتے ہوئے اپنا ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دی ہے، اس دھمکی سے کیا مراد ہے؟ آیا محض خود کو زخمی کرنا یا ہاتھ کی رگ کاٹ کر خودکشی کرنا مراد ہے؟
جواب تنقیح: میری اہلیہ نے مجھے میرے بھائیوں کی موجودگی میں کہا کہ اگر یہ مجھے طلاق نہیں دے گا تو میں اپنا ہاتھ کاٹ دوں گی اور اپنے آپ کو مار دوں گی اور کورٹ چلی جاؤں گی۔

جواب: واضح رہے کہ زبانی طلاق کی طرح تحریری طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے، البتہ اگر شوہر کو تحریری طلاق پر "اکراہ" کی حد تک مجبور کر دیا جائے، اور اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہ کیے ہو، تو ایسی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعتاً درست ہے کہ آپ کی بیوی نے آپ کو طلاق دینے پر مجبور کیا، یعنی اگر آپ اپنی بیوی کو طلاق نہ دیتے، تو آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ وہ خودکشی کر لیتی، تو یہ صورت اکراہ (مجبوری) کی ہے، اور اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، لہذا ایسی صورت میں آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
البتہ اگر ایسی صورت نہیں تھی، یعنی اگر آپ اپنی بیوی کو طلاق نہ دیتے، تو آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ وہ خود کو مارنے کی کوشش نہیں کرے گی، محض آپ پر بیوی کا دباؤ تھا اور اس دباؤ کی وجہ سے آپ نے طلاق دی ہے، تو ایسی صورت اکراہ میں داخل نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں طلاق نامہ میں لکھی گئی تعداد کے مطابق آپ کی بیوی پر اتنی طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (176/7، ط: دار الكتب العلمية)
وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان : نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعاً كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر.... وهذا النوع يسمى إكراها تاما.
أما الذي يرجع إلي المكره فهو أن يكون قادرا علي تحقيق ما أوعد؛ لأن الضرورة لا تتحقق إلا عند القدرة.
وأما النوع الذي يرجع إلي المكره فهو أن يقع في غالب رأيه واكثر ظنه أنه لو لم يجب إلي ما دعي إليه تحقق ما أوعد به؛ لأن غالب الرأي حجة خصوصا عند تعذر الوصول إلي التعيين حتى أنه لو كان في أكثر رأي المكره أن المكره لا يكره ما أوعده لا يثبت حكم الإكراه شرعا.

الفتاوي الهندية: (الطلاق بالكتابة، 378/1، ط: دار الفكر)
رجل أكره بالضرب والحبس علي أن يكتب طلاق إمرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب إمرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق إمرأته كذا في فتاوي قاضي خان.

رد المحتار: (130/6، ط: دار الفكر)
(قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الاولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف نفسه اه. لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه. وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.

کفایت المفتی: (206/8، ط: ادارۃ الفاروق)

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 60/1480

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 864 May 31, 2022

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.